تفسیرِ قرآن میں حدیث سے استفادہ (رضی الاسلام ندوی)

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

تفسیرِ قرآن کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت کی تفسیر میں دوسری آیات کو  پیش نظر رکھا جائے اور یہ بھی تلاش کیا جائے کہ اس کے متعلق احادیث و آثار ہیں یا نہیں ؟ اگر ہوں تو انھیں بھی دیکھا جائے۔ تعارض کی صورت میں تطبیق و تاویل کی کوشش کی جائے، ورنہ قرآن کو حدیث پر مقدم رکھا جائے۔ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کہ قرآن کی تفسیر میں صرف قرآن پر اکتفا کیا جائے اور احادیث و آثار کو یکسر نظر انداز کردیا جائے، خواہ وہ آیت کے موافق ہوں یا ظاہراً مخالف۔ ایک مومن کی دلی خواہش ہونی چاہیے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ اس آیت کے سیاق و سباق میں نبی اکرم ﷺ نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔

قرآن کی تفسیر کرتے وقت احادیث و آثار کی طرف نہ دیکھنا در حقیقت رسول اللہ ﷺ کی ’مبیّنِ قرآن‘ کی حیثیت کو نظر انداز کردینا ہے۔ دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ حدیث کے ظاہراً مخالفِ قرآن ہونے کی صورت میں اس کی تاویل و توجیہ نہ کرنے یا اس کے ردّ و قبول کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کرنے سے یہ ذہن بنے گا کہ حدیثِ صحیح قرآن کے مخالف بھی ہوتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ صحیح رویہ یہ ہے کہ آیات قرآنی کی تفسیر میں اگر احادیث و آثار ہوں تو انھیں دیکھا جائے۔

  پورا قرآن تواتر سے ثابت ہے، لیکن تواتر سے ثابت ہونے والی احادیث بہت کم ہیں۔  اس لیے راویوں کی تعداد اور ان کے حالات کے اعتبار سے احادیث کی درجہ بندی ہوگی اور اسی اعتبار سے ان سے استدلال و استنباط کی بنیاد رکھنا ہوگی۔

فہم قرآن کے لیے حدیث کی ضرورت کہاں کہاں ہے؟

گزشتہ تفصیل سے ظاہر ہوگیا کہ قرآن فہمی کے لیے حدیث سے استفادہ ضروری ہے۔ یہ ضرورت کہاں کہاں پیش آتی ہے؟:

 1-  غرائبِ قرآن اور مشکلاتِ قرآن کی مراد جاننے کے لیے۔

 2-  شان نزول سے واقف ہونے کے لیے : مثلاً وہ آیاتِ کریمہ جن میں کسی واقعہ، کسی سوال کا جواب، یا کسی تنبیہ وغیرہ کا ذکر ہو۔ اس قسم کی چند آیتیں یہ ہیں :

سورۂ انفال،  آیت 5 تا 11 میں غزوۂ بدر کا واقعہ، سورۂ آل عمران آیات 152 تا 155 اور 165 تا 168 میں غزوۂ احد کا واقعہ، سورۂ احزاب آیات 9 تا 25 میں غزوۂ خندق کا واقعہ، سورۂ فتح آیات 1 تا 10 و 18 تا 27 میں صلح حدیبیہ کا واقعہ، سورۂ توبہ آیات 7 تا 24 اور 38 تا 42 میں فتحِ مکہ اور غزوۂ تبوک کاواقعہ، سورۂ احزاب،  آیات 36 و 37 میں حضرت زینبؓ سے نکاح کا واقعہ، سورۂ نور آیات 11 تا 20 میں واقعۂ افک، سورۂ جن آیات 1 تا 19 میں جنات کے وفد کا رسول اللہ ﷺ کی تلاوت سننے کا ذکر اور سورۂ توبہ آیات 107 تا 110 میں مسجد ضرار کا قصہ وغیرہ۔

3-  اس تفسیر سے واقف ہونے کے لیے جو رسول اللہ ﷺؓ سے منقول ہو، مثلاً آیتِ کریمہ:

الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یَلْبِسُواْ إِیْمَانَہُم بِظُلْمٍ۔ (الانعام: 82)

’’جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ’ظلم‘ کے ساتھ مخلوط نہیں کیا۔ ‘‘

 اس میں ’ظلم‘ کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے ’شرک‘ سے فرمائی اور استدلال میں آیتِ کریمہ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان: ۱۳) کی تلاوت فرمائی۔

 اور آیت کریمہ:

 فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتٰبَہُ بِیَمِیْنِہِ۔ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَّسِیْراً۔( الانشقاق:7-8)

’’اور بہر حال جسے اس کا اعمال نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔ ‘‘

 اس میں آں حضرت ﷺنے ’حِسَاباً یَّسِیْراً‘ کی تفسیر ’عرض‘ سے کی۔ یعنی صرف حساب پیش ہوجائے گا، کچھ کھود کرید اور پوچھ تاچھ نہ ہوگی۔

 السنۃ قاضیۃ علی الکتاب کا صحیح مفہوم:

قرآن و سنت کے باہمی تعلق کی وضاحت کے لیے محدثین نے بعض ایسی تعبیرات اختیار کی ہیں جو ذہنوں میں خلجان پیدا کردیتی ہیں۔  مثلاً امام یحییٰ بن ابی کثیر ؒ(م129ھ )نے فرمایا ہے:

السنۃ قاضیۃ علی الکتاب، ولیس الکتاب قاضیاً علی السنۃ۔ (سنن الداریٰ  1117)

’’سنت قرآن کا فیصلہ کرنے والی ہے، قرآن سنت کا فیصلہ کر نے والا نہیں ہے۔ ‘‘

اسی طرح امام مکحولؒ(م112ھ )کا قول ہے۔

 الکتاب أحوج الی السنۃ من السنۃ الی الکتاب  (ابن عبد البر، جامع بیان العلم وفضلہ: 2؍191، تفسیر القرطبی:  1؍39)

’’جتنی ضرورت سنت کو قرآن کی ہے، اس سے زیادہ ضرورت قرآن کو سنت کی ہے۔ ‘‘

 بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ جملہ قرآن کے مقام و مرتبہ کو کم کرتا اور سنت کے مقابلے میں اس کی حیثیت گھٹاتا ہے، اس لیے یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کے ذیعے قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے ایک پہلو کو واضح کیا گیا ہے۔ ان تعبیرات کے سلسلہ میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ غلط فہمی پیدا کرنے والی ہیں اس لیے ان سے اجتناب کرنا اولیٰ ہے،  لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ ان میں حدیث کو قرآ ن پر حاکم بنا دیا گیا ہے اور اس کا درجہ قرآن سے  بڑھا دیا گیا ہے۔ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ سنت رسول کتاب اللہ کی وضاحت اور تشریح کرنے والی ہے۔ اگر کتاب کے کسی حکم میں ابہام، اجمال یا عموم ہو اور سنت سے اس کی توضیح، تفصیل یا تخصیص ہوتی ہے تو اسے قبول کرنا لازم ہوگا۔

 علامہ ابن عبد البرؒ (م۴۶۳ھ)نے مذکورہ بالا قول کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:

’’ یرید انھا تقضی علیہ و تبیّن المراد منہ‘‘(جامع بیان العلم)

’’وہ کہنا  یہ چاہتے ہیں کہ حدیث قرآن کے احتمال کو ختم کرتی اور اس کے معنیٔ مراد کو واضح کرتی ہے۔ ‘‘

 علامہ شاطبی ؒنے لکھا ہے:

’’اس مقولہ کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ کتاب اللہ کی بعض آیات دو یا دو سے زیادہ  امورو مطالب کی محتمل ہوتی ہیں، لیکن سنت ایسی تمام آیات کے جملہ محتملات میں سے کسی ایک محتمل کی تعبیر کرکے اس آیت کا مقصدومطلب متعین کرتی ہے۔ اس چیز پر استدلال عموماً ان احادیث سے کیا جا تا  ہے جن سے ظواہر قرآن کے خلاف مطلق کو مقید اور عام کو خاص کیا جاتا ہے۔ ظواہر قرآن کے مقتضا کو یوں ترک کرکے سنت کی طرف رجوع کرنے سے کتا ب اللہ پر سنت کی تقدیم لازم نہیں آتی، بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جو چیز سنت میں معتبر ہے وہی کتاب اللہ کی بھی منشا و مراد ہے۔ پس اس قول کا اصل محرک اصول قرآنیہ کی توضیح میں سنت کا عظیم اثروکردار ٹھہرا۔ ‘‘  (الموافقات : 4؍4)

اور علامہ سیوطیؒ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:

’’اصل یہ ہے کہ قرآن کے سنت کا محتاج ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سنت قرآن کی مبیّن  اس کے مجملات کی تفصیل کرنے والی ہے۔ گویا قرآن ایک چھپا ہوا خزانہ ہے،  جسے ضرورت ہے کہ کوئی اسے آشکارا کرے۔ سنت اسے آشکارا کرتی ہے۔ یہی مطلب ہے اس بات کا کہ ’’سنت کتاب کا فیصلہ کرنے والی ہے‘‘۔ قرآن، سنت کا ’مبیّن‘(وضاحت کرنے والا) نہیں ہے اور اس کا فیصلہ کرنے والا بھی نہیں۔  کیوں کہ سنت بذاتِ خود ’مبیّن‘ ہے، وہ قرآن کی طرح اعجاز و ایجاز کی حد تک نہیں پہنچی ہے، کیوں کہ سنت قرآن کی شرح ہے اور شرح کی شان یہ ہے کہ وہ مشروح سے زیادہ واضح اور صاف صاف ہو‘‘۔ ] بہ حوالہ مناھل العرفان فی علوم القرآن۔ زرقانی)

اس مفہوم کو قبول کرتے ہوئے بعض محدثین نے اپنی کتابوں میں اس مقولہ کو مستقل عنوان قرار دیا ہے:  باب السنۃقاضیۃ علی الکتاب  (سنن الدارمی : 1؍117)

Related Posts