سیمی فائنل ہمیں کس نے ہرایا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شائقین کرکٹ نے حسن علی کو اہم کیچ چھوڑنے پر آڑے ہاتھوں لے لیا
شائقین کرکٹ نے حسن علی کو اہم کیچ چھوڑنے پر آڑے ہاتھوں لے لیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 سیمی فائنل ہم ہار گئے، اس ورلڈ کپ سے باہر ہوگئے مگر ٹیم کی کارکردگی ایسی رہی کہ اسے سراہا جائے، اسے بیک کیا جائے اور مستقبل کے لئے انہیں مزید گروم کیا جائے۔یہ شکست مگر چند اہم سبق سکھاتی ہیں، جنہیں سمجھ لیا جائے تو آئندہ کے دھچکوں سے بچا جا سکتا ہے۔

ویک لنک کسی بھی وقت نقصان پہنچا سکتا ہے
دوعشرے پہلے کی بات ہے ، لاہور میں ممتاز ادیب اور لفظوں کے جادوگر اشفاق احمد سے پہلی ملاقات ہوئی، ڈھائی تین گھنٹے کی سحرانگیز گفتگو کے بعد جب اٹھنے لگا تو ان کے آگے آٹو گراف بک کی ، اشفا ق احمد نے ایک لمحے سوچاا ور پھر جملہ لکھا، ” زنجیر کی کمزور کڑی ہی سب سے طاقتور کڑی ہے کہ وہ جب چاہے زنجیر توڑ سکتی ہے۔“ فقرے کی معنویت اور گہرائی پر ہم غور کرتے رہے، کچھ سمجھ آیا، کچھ نہ آیا۔وقت اور تجربے نے مگر یہ سکھادیا کہ اپنے کسی کام، پراجیکٹ ، تنظیم یا دفتری ٹیم میں کبھی ویک لنک نہیں رکھنا چاہیے ۔ اگر کہیں سے کوئی کمزور کڑی آ گئی ہے اور نجات پانا ممکن نہیں تو اسے فیصلہ کن بحرانی امور سے باہر رکھنا چاہیے ۔

سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے شکست کے بعد ٹیم مینجمنٹ کو بھی یہ احساس ہوگا کہ صرف سنہری اقوال سے بات نہیں بن سکتی اور بار بار مواقع دینا کبھی اعتماد بڑھانے کے بجائے مزید شکستہ کر دیتا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں ایک دو ویک لنک یا کمزور کڑیاں تھیں۔جیسے فخر زمان اچھے ردھم میں نہیں تھے، محمد حفیظ پچھلے کئی ماہ سے آؤٹ آف فارم رہے۔

اسی طرح حسن علی ورلڈ کپ سے تین چارماہ پہلے سے اپنا ردھم کھو بیٹھے۔ حسن علی کی ٹیم میں جگہ ایک مرکزی باؤلر کے طور پر بنتی ہے۔ وہ وکٹیں لیتے اور درمیانی اوورز میں ٹیم پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر وہ جارحانہ بیٹنگ کر سکتے ہیں، مگر یہ ان کی ٹیم میں ہونے کا سبب نہیں۔ اگر حسن علی باؤلنگ اچھی نہیں کرا رہے تو ان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔

ٹیم مینجمنٹ نے پہلے میچ میں فخرزمان، حفیظ اور حسن علی کے ساتھ عماد وسیم کو کھلایا اورپھر پہلے میچ جیتنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اسی ٹیم کومسلسل کھلایا جائے، یوں حیدرعلی، وسیم جونیئر اور محمد نوازیا سرفراز کے کھیلنے کا امکان ختم ہوگیا۔

ممکن ہے پہلا میچ ہار جاتے تو حیدر علی یا وسیم جونیئر کو موقع دیا جاتا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کھلاڑی غیر معمولی کھیل دکھا دیتے ، مگر یہ سب مفروضات ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ نوجوان کھلاڑی دباؤ برداشت نہ کر پاتے ۔ خیر ٹیم مینجمنٹ کی حکمت عملی فخرزمان اور محمد حفیظ کے بارے میں تو درست نکلی کہ متواتر کھیلنے سے دونوں فارم میں آ گئے۔

عامر خاکوانی کے مزید کالم بھی پڑھیں:

انگلینڈ کی ناکامی کی اصل وجہ کچھ اور ۔۔۔

فتوحات کے جشن میں ان خامیوں کو نہ بھولیں

حسن علی مگر پورے ٹورنامنٹ میں آف کلر رہے، ان کی باؤلنگ میں وہ کاٹ نہیں تھی ۔ اگرچہ ایک آدھ میچ میں وہ کفایتی باؤلنگ کرا گئے، مگر یہ وہ حسن علی نہیں تھا جس کی ٹیم کو ضرورت تھی، سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ ہر میچ میں انہوں نے نو بالز کرائیں۔ جب کوئی فاسٹ باؤلر نو بال کراتا ہے تو اس کاواضح مطلب ہے کہ وہ ردھم میں نہیں اور اسے مشکل آ رہی ہے۔

محسوس یہ ہوتا ہے کہ آؤٹ آف فارم حسن علی کو متواتر کھلانا اس کے لئے مزید نقصان دہ ثابت ہوا۔ سیمی فائنل میں حسن علی سے بہت اہم کیچ ڈراپ ہوا، مگر وہ کیچ نہ چھوٹتا تب بھی وہ ٹیم کے سب سے مہنگے باؤلر ثابت ہوچکے تھے۔ وہ اپنا کردار نبھانے میں ناکام رہے اور بطور ویک لنک ٹیم کی تباہی میں کردار ادا کیا۔

وائٹ بال کرکٹ میں جارحیت لازمی امر ہے
پاکستانی ٹیم میں یہ ایک عنصر کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے پاس دو طرح کی کیٹیگریز ہیں۔ ہمارے پاور ہٹرز دراصل سینس لیس قسم کی ٹلر ہیں جو بغیر دیکھے بھالے اندھا دھند کھیل کر وکٹ گنوا دیتے ہیں ،شرجیل خان، خوشدل شاہ وغیرہ اس کی کلاسیکل مثال ہیں۔ حیدر علی نے بھی کئی میچز میں یہی کیا۔ آصف علی نے اس ٹورنامنٹ میں کمال کیا، مگر وہ پہلے بیسیوں میچز میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔

دوسری کیٹیگری میںہمارے پاس اسپیشلسٹ بلے باز ہیں،جو کرکٹنگ شاٹس کھیلتے اور وکٹ پر ٹھہر کر رنز بناتے ہیں۔ بابر اعظم اس کی بہترین مثال ہے، کسی حد تک رضوان بھی، ویسے تو فخر زمان بھی وکٹ پر سیٹ ہونے کے لئے کچھ وقت لیتا ہے۔ بابر ٹیم کا واحد ورلڈ کلاس بیٹر ہے جو دنیا کی کسی بھی پچ پر رنز کر سکتا ہے، بابر کی ایک کمزوری مگر پاور پلے میں بگ ریلیزنگ شاٹس نہ کھیلنے کی نظر آئی ہے۔

رضوان نے پچھلے کچھ عرصہ میں مسلسل پریکٹس اور کوچز سے کنسلٹ کر کے لیگ سائیڈ پر بڑے چھکے مارنے کی مہارت پیدا کر لی ۔اس وقت یہ جوڑی ڈیڑھ سو سے ایک سو ساٹھ رنز کے تعاقب کے لئے بہترین پرفارم کرتی ہے۔عرب امارات کی پچوں کے لئے یہ ٹھیک ہے، مگر دنیا بھر میں اب فلیٹ بیٹنگ پچیں بنتی ہیں جہاںدو سو رنز بننے عام بات ہے۔ بابر اور رضوان کی بہترین جوڑی کے لئے تب چیلنجنگ صورتحال پیدا ہو جائے گی۔انہیں اس مسئلے پر ابھی سے کام کرنا پڑے گا۔

اسپن اٹیک سے ڈیل کرنا سیکھیں
ایک زمانہ تھا پاکستانی بلے باز اسپن کو بہت اچھا کھلتے تھے۔ جاوید میانداد ، سلیم ملک اس کے ماسٹر تھے، ان کے بعد انضمام الحق، محمد یوسف، یونس خان بھی بہت اچھا کھیلتے تھے، مصباح بھی اسپن کے خلاف کلین ہٹر تھے۔ موجودہ ٹیم میں صرف شعیب ملک اسپنرز کو بہت اچھا کھیلتے ہیں۔ بابر اعلیٰ بلے باز ہیں، مگرا سپنرز انہیں مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔

بابر کو لیفٹ آرم اسپنرز نے ماضی میں خاصا پریشان کیا، وہ جنوبی افریقہ کے کیشو مہاراج سے آؤٹ ہوتے رہے،انڈین کلدیپ نے انہیں تنگ کیا۔ لیگ اسپنر ز جیسے زمپا، سوڈھی،راشد خان وغیرہ کو وہ کھل کر نہیں کھیل پاتے۔ اسکاٹ لینڈ کے تھکے ہوئے اسپنرز نے ٹیم کو پریشان کیا، شعیب ملک اگرہٹنگ نہ کرتے تو زیادہ رنز نہ بن پاتے۔

پاکستانی بلے بازوں کو اسپنرز کے خلا ف مہارت حاصل کرنا ہوگی۔ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کے درمیانی اوورز میں اسپنرز پر چارج کئے بغیر تیزی سے رنز نہیں بن سکتے۔ سیمی فائنل میںزمپا اور پارٹ ٹائم اسپنر میکسویل کے اوورز میں بابر، رضوان بے بس نہ ہوتے تو آسانی سے پندرہ بیس رنز مزید بن جاتے ۔ اس خامی پر اب کام کرنا چاہیے کہ شعیب ملک کے کیریئر کا اختتام ہے، اب خود ہی نمٹنا پڑے گا۔

پاکستان کو اچھے اسپیشلسٹ اسپنرز کی بھی ضرورت ہے
یہ حقیقت مان لینی چاہیے کہ وائٹ بال میں ہمارے پاس کوئی غیر معمولی اسپنر موجود نہیں۔ ایسا مسٹری باؤلر جو مخالف ٹیم کو پریشان کر سکے اور درمیانی اوورز میں وکٹیں لے۔ شاداب خان میں پہلے جیسی بات نہیں رہی، اگرچہ اس ٹورنامنٹ میں شاداب نے محنت کی اور اہم وکٹیں لیں۔ شاداب مگر سوڈھی، زمپا،راشد خان، ہسارانگا،مہدی حسن، تبریز شمسی کی سطح کا اسپنر نہیں۔

عماد وسیم اوسط درجے کے اسپنر ہیں ، امارات کی پچوں پر یہ کفایتی باؤلر رہے، مگر انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ ، ویسٹ انڈیز وغیرہ میں عماد موثر نہیں۔ محمد نواز بھی ویسے ہی باؤلر ہیں ۔ عثمان قادر اچھے لیگ اسپنر ہیں، مگر انہیں زیادہ کنٹرول حاصل نہیں اور وہ کسی بھی اوور میں دو تین چھکے کھا کر ٹیم پر دباؤ ڈلوا سکتے ہیں۔

عثمان کو گروم کرنا چاہیے۔ ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد جیسے اسپن کوچ ہمارے پاس ہیں۔ جو اسپنر دستیاب ہے، ان کی کوالٹی بہتر کی جائے مگر نیا ٹیلنٹ ڈھونڈنا چاہیے۔ اچھا لیفٹ آرم رِسٹ اسپنر ، کیرم گیند کرنے والا باؤلر یا ورائٹی رکھنے والا عمدہ لیگ اسپنر۔ اس مقصد کے لئے ٹیلنٹ کیمپ لگانے چاہئیں۔

ڈیتھ اوورز میں فاسٹ باؤلنگ
سیمی فائنل میں حسن علی پر سارا ملبہ ڈال دیا گیا ہے، ان کی بدقسمتی کہ کیچ ان کی طرف گیا، ورنہ یہ کسی سے بھی ڈراپ ہوسکتا تھا۔ اصل خرابی شاہین شاہ کی ہوش کے بجائے جوش سے باؤلنگ اور تین مسلسل چھکے کھانا ہے۔ اگر شاہین شاہ آخری دو گیندیں ٹھیک کرا لیتا تو میچ آخری اوور تک چلا جانا تھا اور تب کچھ بھی ہوسکتا تھا۔

شاہین شاہ کو بیک آف ہینڈ اچھی سلو بال کرانا سیکھنا پڑے گا۔ وہ انگلیاں گھما کرسلو لیگ کٹر کرا رہے ہیں جو کھبے بیٹر کے لئے اندر آتا ہے، ویڈ نے آسانی سے اندازہ کر کے اس پر لمبا چھکا لگا دیا۔ بیک آف ہینڈسلو گیند کھبے کے لئے باہر کو نکلتی اور شائد بڑی ہٹ مارنا مشکل ہوجاتا ۔ دوسرا شاہین ایک مخصوص انداز میں آخری اوورز میںفائن لیگ اوپر لے کر لیگ اسٹمپ پر یارکر کرارہے ہیں جس پر اسکوپ شاٹ کھیلنا آسان ہے، آسٹریلین ویڈنے ایسا ہی کیا۔

شاہین شاہ کو ڈیتھ اوورز میں بلے باز کو ڈاج دینا اور ملٹی پل آپشنز سامنے رکھ کر باؤلنگ کرانا سیکھنا ہوگی تاکہ مخالف بیٹر یکسو ہو کر بڑے شاٹ نہ کھیل پائے۔ شاہین نئی گیند بہت عمدہ کراتے ہیں مگر ڈیتھ اوورز میں اچھی باؤلنگ لازمی ہے۔و ہ نوجوان ہیں، جلد سیکھ جائیں گے، مگر اس جانب توجہ دینا بہت ضروری ہے۔

Related Posts