صوبہ سندھ کے وزیرِ اطلاعات سیّد ناصر حسین شاہ نے آج اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ پانی پر وفاق کی سندھ کے خلاف گھناؤنی مہم ناقابلِ برداشت ہے جبکہ صوبائی حکومت اپنے حصے کا پانی مانگ رہی ہے۔
وزیرِ اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ یہ کہہ کر ہمارا حق متنازعہ بنایا جارہا ہے کہ پہلے یہ بتاؤ پانی جاتا کہاں ہے؟ کیا اس سوال کا جواب پنجاب دے گا؟ ساری نفرتیں سندھ کے ساتھ کیوں کی جاتی ہیں؟
غور کیا جائے تو پانی کا مسئلہ کسی ایک صوبے کا نہیں بلکہ پاکستان بھر کا مسئلہ بن چکا ہے جس پر صوبوں کے مابین افہام و تفہیم وقت کی ضرورت ہے۔ آئیے پانی کے مسائل سے متعلق دیگر حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ علم ہوسکے کہ پانی کی قلت کا مسئلہ کب تک حل ہوسکے گا۔
آبی قلت پر وزیرِ اعظم کا بیان
آج گرین یورو بانڈ کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ آج ہم وہ کر رہے ہیں جو 50 سال پہلے کرنا چاہئے تھا۔ پانی کی قلت ختم کرنے کیلئے 10 ڈیم بنا رہے ہیں۔
خطاب کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ 60ء کی دہائی میں پاکستان میں طویل مدتی پلاننگ جاری تھی۔ جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو ایشین ٹائیگرز پاکستان سے پیچھے تھے۔ آج پاکستان میں طویل المدت پلاننگ نہیں ہوتی۔
سندھ حکومت کا مؤقف
محکمۂ زراعت سندھ کا کہنا ہے کہ سندھ میں 11 لاکھ ہیکٹر سے زائد رقبے پر گندم کی کاشت ہوتی ہے جبکہ بالائی و زیریں اضلاع میں 6 لاکھ ہیکٹر رقبے پر چاول کاشت کیا جاتا ہے۔ پانی کی قلت کے باعث زیریں سندھ میں کپاس کی فصل بچانا مشکل ہوچکا ہے۔
حال ہی میں 4 روز قبل 27 مئی کو وزیرِ آب پاشی سندھ سہیل انور سیال نے وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کی اور سندھ کو اس کے حصے کا پانی نہ ملنے کی شکایت رجسٹر کرائی۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران وزیرِ آب پاشی نے کہا کہ ٹی پی کینال سے پانی چوری کیا جارہا ہے اور سندھ اپنے حصے کا پانی حاصل نہیں کر پا رہا، جس پر وزیرِ اعظم نے چیئرمین ارسا کو طلب کر لیا۔
دوسری جانب پی پی پی رہنما سیّد نوید قمر نے قومی اسمبلی میں پانی کی قلت کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ارسا کو بارہا کہا گیا کہ قلت کے وقت لنک کینالز کو نہ کھولے۔ ممبر سندھ ارسا کو اجلاس کے دوران زدوکوب کیا گیا، حکومت تفتیش کرے۔
پنجاب حکومت کا مؤقف
صوبائی وزیرِ آب پاشی محسن لغاری نے کہا کہ پانی پر نظر رکھنے کیلئے غیر جانبدار مبصرین سے مدد لی جائے۔ انہوں نے کہا کہ خریف میں سندھ کو 17 اور پنجاب کو 22 فیصد پانی کی کمی کا سامنا تھا۔ سندھ پانی کے معاملے پر غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے 600 میل کے نہری نظام میں پانی کا ضیاع (واٹر لاسز) 39 فیصد ہے۔ پنجاب کے 2 ہزار 600 میل کے نہری نظام میں یہ صرف 8 فیصد ہوتا ہے۔ سندھ کے ساتھ بداعتمادی کی فضا ختم ہونی چاہئے۔
ارسا کے اقدامات