کیا دعا زہرہ کو اس کے والدین کو واپس کردینا چاہیے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دعازہرہ کیس پر سندھ پولیس کے 30 لاکھ خرچ، سوشل میڈیا صارفین کامزاحیہ ردعمل
دعازہرہ کیس پر سندھ پولیس کے 30 لاکھ خرچ، سوشل میڈیا صارفین کامزاحیہ ردعمل

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

14 سالہ دعا زہرہ کو لاہور میں اپنے شوہر کے گھر میں لوٹے ایک ہفتہ ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

گزشتہ دنوں سندھ ہائیکورٹ میں دعا زہرہ کیس کی سماعت ہوئی تھی، جس کے فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ بیان حلفی کی روشنی میں عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دعا زہرہ مرضی سے جس کے ساتھ جانا چاہے یا رہنا چاہے، رہ سکتی ہے۔

عدالت نے کہا تھا کہ چونکہ یہ شادی پنجاب میں ہوئی ہے، اس لئے سندھ چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

دعا زہرہ نے حال ہی میں شوہر ظہیر احمد کے ہمراہ انٹرویو دیا ہے، جو کہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہورہا ہے اور اکثریت یہی سوال کررہی ہے کہ آیا دعا زہرہ کو اُس کے گھر بھیجا جائے یا نہیں؟

اغوا ہوئی یا مرضی سے گئی؟

دعا زہرہ اپریل میں کراچی سے پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئی تھی لیکن بعد میں اس نے اعلان کیا کہ وہ 21 سالہ ظہیر احمد سے شادی کرنے گھر سے بھاگی تھی۔ دوسری جانب اس کے والدین نے دعویٰ کیا کہ اس کی عمر 14 سال تھی لیکن اس نے دعویٰ کیا کہ اس کی عمر 18 سال تھی اور اس نے اپنی مرضی سے اپنے شوہر سے شادی کرنے کے لیے کراچی چھوڑ کر لاہور کا سفر کیا۔

معاملہ

لڑکی کے والد نے گزشتہ ماہ پنجاب عدالت کے احکامات کے خلاف درخواست کے ساتھ سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ مہدی نے درخواست میں کہا تھا کہ ان کے تعلیمی دستاویزات، پیدائشی سرٹیفکیٹ اور دیگر ریکارڈ کے مطابق دعا کی عمر 13 سال تھی اور سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے تحت نابالغ/کم عمر سے شادی کرنا غیر قانونی ہے۔

دعا زہرہ کی عمر کی تصدیق ہوگئی

عدالت کے حکم کے مطابق میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ دعا زہرہ واقعی کم عمر تھی اور اس کی عمر 16 سے 17 سال کے درمیان ہے۔

آخری فیصلہ

سندھ ہائی کورٹ نے کیس کو اس فیصلے کے ساتھ سمیٹ دیا کہ دعا زہرہ انتخاب کرسکتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ گھر جانا چاہتی ہے یا اپنے شوہر کے ساتھ اور یہ کیس اغوا کا نہیں ہے۔

شیعہ برادری کا جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ

یہ کل کی بات ہے جب سوشل میڈیا پر اس قسم کی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ شیعہ برادری کی ایک نمائندہ تنظیم نے ظہیر احمد کے ساتھ دعا زہرہ کی شادی کے تنازعہ کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی ایڈیشنل جنرل سیکرٹری علامہ ناظر عباس نقوی نے امام بارگاہ عزاخانہ زہرہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دعا زہرہ کی ظہیر احمد کے ساتھ نام نہاد مرضی کی شادی کا معاملہ بہت حساس ہوتا جا رہا ہے۔ “ہم عدالتی فیصلوں یا تفتیشی اداروں پر اثر انداز نہیں ہونا چاہتے، تاہم ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک شفاف جوڈیشل انکوائری کمیشن بنایا جائے۔”

مذہبی اسکالر علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی نے دعا زہرہ کے والدین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ اس معاملے کو پاکستان میں ایک سازش کے طور پر پیش کیا گیا اور مذہبی قوانین اور ثقافتی اقدار کے خلاف آزادی پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘پاکستان کے معزز عوام ایسی سازش کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے’۔

حالیہ انٹرویو

دعا زہرہ نے انٹرویو میں واضح کہا ہے کہ میں اپنے والدین سے درخواست کرنا چاہونگی کہ وہ مجھے اور ظہیر کو کھلے دل سے قبول کرلیں۔ اُس کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ وہ دکھ سے گزرے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں قبول کرلیں۔

بعدازاں دعا زہرہ نے دعویٰ کیا کہ اس کے والد مہدی کاظمی اس کی شادی اپنے بھتیجے (اپنے بھائی کے بیٹے) زین العابدین سے کرنا چاہتے تھے تاکہ ’پلاٹ‘ حاصل کر سکیں جس پر ان کا اپنے بھائی کے ساتھ جھگڑا تھا۔

دعا زہرہ کے والد کا ردِعمل

دعا زہرہ کے والد مہدی علی کاظمی نے وکلاء پر زور دیا کہ وہ ٹرائل کورٹ میں کیس کی قیادت کریں اور سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل بھی دائر کریں۔

کیا دعا زہرہ کو اس کے والدین کو واپس کردینا چاہیے؟

اپنے حالیہ انٹرویو میں دعا نے واضح طور پر کہا کہ ان کی پیدائش 2006 میں ہوئی تھی اور وہ 17 سال کی ہیں، جس کی وجہ سے اب بھی ان کی عمر 17 سال نہیں بلکہ 16 سال بنتی ہے، جب کہ ان کا نکاح 16 سال کی ہونے سے پہلے ہو چکا تھا، اس لیے دیکھا جائے تو یہ نکاح پنجاب کے قانون کے تحت بھی غیر قانونی تھا۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین کے مطابق، کم عمری کی شادی ٹھیک نہیں، غیر قانونی ہے اور اسی لئے دعا زہرہ کو اُس کے والدین کو واپس کردینا چاہیے۔

Related Posts