علماء کا احترام واجب ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

امام الانبیاء، خاتم النبیین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’علماء، انبیاء کے بعد ان کے وارث اور قائم مقام ہوں گے۔‘‘حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آدمی کے سمجھ دار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کا چلنا پھرنا اور اٹھنا بیٹھنا اہل علم کے ساتھ ہو۔ علمائے کرام کی صحبت سے آداب و اخلاق سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ان سے تعلق ہماری دینی و دنیوی زندگی کے لیے مفید ہے ، ان کی ہمراہی سے علم میں اضافہ ہوتاہے ۔

آج کے دور میں جب دنیا بے شمار مسائل میں گھری ہوئی ہے اور امت مسلمہ کو لاتعداد مشکلات کا سامنا ہے ایسے میں مسلمان علمائے  دین  کو بھی تضحیک و تمسخر اور تنقید کا نشانہ بناکر اہل اسلام کو بدظن کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن چونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کو نبیوں کا وارث اور ان کا قائم مقام قرار دیا ، اس لئے آسمان کے فرشتے، چیونٹیاں اور مچھلیوں تک تمام مخلوقات ان سے محبت کرتی اور ان کے لیے دُعائے خیر کرتی ہیں۔

 خیر کی طرف دعوت ، وضعداری و انکسار، عوام سے محبت اور ان کی دنیوی و اخروی خیرخواہی علمائے کرام کی خاصیت ہے ، یہ علماء ہی ہیں جو دین اسلام پر استقامت کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں اور حق کیلئے ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور کسی تامل سے کام نہیں لیتے لیکن آ ج امت مسلمہ انتشار کا شکار ہوچکی ہے، دین کی تعلیم دینے اور حق کی راہ پر ثابت قدمی کا درس دینے والے علماء کی ذات کو نشانہ بناکر لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان میں ایک شادی کی تقریب کا چرچا ہوا، اس تقریب میں ملک کے معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے نکاح کی رسم ادا کی ۔مولانا طارق جمیل پاکستان میں  مشہور اور بااثر شخصیت سمجھے جاتے ہیں، لوگ مولانا طارق جمیل سے ملنا باعث شرف سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا نکاح مولانا طارق جمیل جیسے علماء پڑھائیں اور پاکستان کے دور دراز پسماندہ علاقوں میں بھی جائیں تو وہاں بیشمار ایسے لوگ ملیں گے جن کا نکاح مولانا طارق جمیل ، مولانا فضل الرحمان اوردیگر نمایاں علماء کرام نے پڑھایا لیکن ماسٹر ٹائلز فیملی کی شادی میں شرکت پر مولانا طارق جمیل کی شرکت کے خلاف نہایت شرمناک مہم چلائی جارہی ہے۔

پاکستان میں ایک مخصوص دین بے زار طبقہ علماء اور اسلام کیخلاف ہرزہ سرائیوں میں مصروف ہے اور کسی نہ کسی بات کو جواز بناکر علماء حق کی تضحیک کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے، ماسٹر ٹائلز فیملی کی اس شادی کی تقریب میں میڈیا رپورٹس کے مطابق اربوں روپے خرچ ہوئے اور مولانا طارق جمیل پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے نکاح پڑھانے کے دس لاکھ روپے فیس لی اور مولانا طارق جمیل کی جانب سے سادگی کے حوالے سے بیانات کااس شادی سے موازنہ کرکے ان کی تحقیر کی جارہی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا طارق جمیل کوئی غریب یا مفلس نہیں بلکہ ایک مستحکم خاندانی پس منظر رکھتے ہیں، زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ مولانا طارق جمیل نے عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے بجائے سادہ طرز زندگی اختیار کیا اور اسلام کے متوالوں کے دلوں کو دین کو روشنی سے منور کررہے ہیں اور جہاں تک بات اس شادی میں 10 لاکھ روپے لینے کی ہے تو اس کی تردید خود مولانا طارق جمیل کرچکے ہیں لیکن اگر بفرضِ محال یہ مان بھی لیا جائے کہ مولانا طارق جمیل نے نکاح پڑھانے کیلئے فیس لی تو اس میں کیا مضائقہ ہے ؟۔

کسی بھی مسلک یا مذہب میں نکاح خواں کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے جو ایک جوڑے کو مذہبی رسومات اور قواعد کے مطابق ایک پاک رشتہ میں باندھتا ہے لیکن ہمارا معاشرہ دیگر رسوم پر بے جا اسراف کے باوجود نکاح خواں کو کچھ دینا معیوب سمجھتا ہے اور ایسا سوچنے والوں کے نزدیک علماء کومحض ایک جھونپڑی اور دال روٹی پر ہی گزارہ کرنا چاہیے جو کہ نامناسب سوچ ہے۔ علماء بھی انسان ہیں اور ان کی بھی ضروریات ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم علماء کی جائز ضروریات کا نہ صرف خیال رکھیں بلکہ ان کی معاونت بھی کریں تاکہ علماء بھی اپنے ایامِ حیات خوش اسلوبی سے پورے کرسکیں۔

ایک اور واقعہ آج کل سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے جس میں مفتی طارق مسعود کی ازراہ مذاق کہی ہوئی بات کو جواز بناکر بےبنیاد پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ مفتی طارق مسعود نے چار سال کی بچی سے شادی کروانے کی پیشکش کی۔ اس ویڈیو کا پس منظر جانے بغیر تنقید کرنے والوں کو شائد علم نہیں کہ مفتی طارق مسعود ایک ایسی شخصیت ہیں جو بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین سے شادی پر زور دیکر معاشرے میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ مفتی طارق مسعود کی تعلیم و تربیت کا ہی کمال ہے کہ آج ملک میں نوجوان بھی کنواری دوشیزاؤں کے بجائے بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین سے شادی کرکے ان کو سائبان فراہم کررہے ہیں۔

علماء کرام کی مذاق میں کی گئی بات یا کسی تقریب میں شرکت کو جواز بناکر تنقید جائز نہیں ہے اور ایسا کرنے والوں کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے، یہ لوگ دن رات درس و تدریس میں صرف کرتے ہیں ، ناحق کسی کا قتل نہیں کرتے، فضول خرچی نہیں کرتے ، دین کی تعلیمات کو پھیلاتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے قریب لاتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر طعن و تشنیع کرنا اور ان کی عزتوں سے کھیلنا انتہائی شرمناک ہے۔ ہم سب کیلئے لازم ہے کہ ہم کسی عالم دین کی ذات پر بات کرنے سے پہلے مکمل تحقیق کریں اور دین کی خدمت کرنیوالوں کی تضحیک کے بجائے احترام لازمی بنائیں تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں عزت پاسکیں۔

Related Posts