منفی خیالات سے چھٹکارہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دنیا بھر میں ہر کامیاب فرد سے پوچھ لیجئے، آپ کو کامیابی کا طریقہ کوئی نہیں بتائے گا، مجھے بھی کامیاب افراد سے گفتگو کے بعد کوئی ٹھوس اور سیدھا سادا جواب نہیں مل سکا۔ جو جوابات ملے، اس سے پتہ چلا کہ آپ کو اپنا نتیجہ خود اخذ کرنا ہے۔ کچھ افراد نے کامیابی کیلئے نظم و ضبط اور کچھ نے ویژن کی بات کی جبکہ دیگر نے تعلیمی پس منظر پر فخریہ بیانات جاری کیے۔ الغرض یہ فہرست بہت طویل ثابت ہوگی۔

کامیابی کی تلاش کیلئے میں نے متعدد مصنفین کی کتابیں پڑھیں۔ ڈیل کارنیگی سے لے کر نارمن ونسنٹ تک اور انتھونی رابنسن سے لے کر دیپک چوپڑا تک اپنی مدد آپ اور کامیابی کا راز بیان کرنے والی تمام تر کتب میری نظر سے گزریں۔ پھر ایک سیمینار میں شریک ہوا۔ کامیاب لوگوں کی خودنوشت پڑھنا بھی نہیں بھولا۔ ہنری فورڈ اور ہاورڈ ہیوجز سمیت بہت سی یورپی و امریکی کاروباری شخصیات پر دستاویزی فلمیں بھی دیکھ ڈالیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کامیابی کا راستہ کھلنے لگا۔ ہر سال میری ذاتی زندگی میں بھی بہتری آتی رہی۔ ایک روز مجھے شکاگو میں یوتھ کانفرنس میں تقریر کیلئے دعوت دی گئی جس کا اہتمام اسلامک سوسائٹی آف شمالی امریکا نے کیا تھا۔ شعلہ بیان تقریر اور اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کے بعد میں ہوٹل کی لابی میں جا کر کھڑا ہوگیا جہاں کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ میری عمر بمشکل 28 سال ہوگی۔ ایک روشن آنکھوں والے نوجوان نے مجھ سے سوال کیا کہ اگر آپ کامیابی کی وجہ ایک ہی لفظ میں بیان کرسکیں تو وہ کیا ہوگا؟ اس سے قبل میں ایسی مشکل میں کبھی نہیں پڑا تھا اور خود بھی گزشتہ 7 برس سے ایسے ہی سوالوں کے جواب ڈھونڈ رہا تھا۔ اچانک میرے منہ سے نکلا آپٹیمزم یعنی خوش امیدی۔ اس سے مجھے احساس ہوا کہ اپنے سوال کا جو جواب میں ڈھونڈ رہا تھا، وہ توخود میرے پاس موجود ہے۔ مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ کامیاب کیوں ہوئے؟ اس سوال کا ہر شخص کے پاس ایک مختلف جواب ہوتا ہے۔ جوابات کی تلاش میں جانے سے قبل آپ کو کامیابی کے اپنے تصور کی از سرِ نو وضاحت کرنا ہوگی یعنی آپ کی نظر میں کامیابی کیا ہے؟ پہلے یہ جان لیجئے۔

گزشتہ کئی برس سے خوش امیدی میری کامیابی میں سب سے زیادہ معاون ثابت ہوئی۔ محنت اور حکمتِ عملی کی منصوبہ بندی کے ساتھ مل کر اچھے حالات اور بہتری کیلئے امید رکھنا آپ کو منزلِ مقصود تک پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے لیکن کوئی کام کیے بغیر خوش امیدی دیوانے کا خواب ثابت ہوگی۔ خواب دیکھنے اور انہیں حقیقت بنانے کیلئے کام کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس موضوع پر گفتگو پھر سہی، آج ہمیں پاکستان اور اس کے آس پاس کے نوجوانوں پر بات کرنی ہے جو حوصلہ شکنی کا شکار ہیں۔ مغربی نوجوان ایسی حوصلہ شکنیوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے جو پاکستانیوں کو سہنی پڑتی ہیں۔ اگر اِس خطے کے نوجوان کامیاب ہوجائیں تو میں انہیں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ پاکستان میں کاروبار کیلئے مالی معاونت اور مواقع کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ اس لیے نوجوانوں کیلئے خوش امیدی بھی مشکل ہوچکی ہے۔ یہاں نوجوانوں کیلئے سب سے اہم مشورہ اپنے ذہن کی حفاظت کرنا ہے کیونکہ انہیں پیش آنے والی مشکلات اور ناکامیاں زیادہ ہوتی ہیں۔

ایک نوجوان کی حیثیت سے سب سے پہلے اپنے منفی دوستوں کی شناخت کریں اور ان سے چھٹکارہ حاصل کریں دوست لفٹ کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ یا تو آپ کو اپنی زندگی میں اپنا لیتے ہیں یا اپنی تنقید کے ذریعے آپ کو نیچے لانا شروع کردیتے ہیں۔ آپ کو نیچے جانے والی لفٹ نہیں پکڑنی ہے۔ زندگی میں ایسا کرنا بے حد مشکل ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ جب آپ کو یہ احساس ہوجائے کہ آپ کو تو منفی دوستوں نے گھیر رکھا ہے تو آپ ان سے نجات حاصل کرکے تنہا رہ جائیں گے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو برکت کے طور پر دیکھیں۔ شروع میں آپ بے چین ضرور ہوں گے لیکن تنہا رہ جانے کے ساتھ ساتھ آپ کو مثبت کام کرنے کا زیادہ وقت بھی میسر آئے گا۔ اپنے مقصد کو مزید وقت دیں، مطالعے کو اپنی عادت بنائیں۔ کاروباری منصوبوں پر تحقیق کریں، مثبت اور کامیاب شخصیات سے ملیں اور اسی طرح کے دیگر مثبت کام کریں۔

یہی نہیں کہ منفی دوست آپ کے زوال کا سبب ہیں بلکہ یہ منفی رویہ ہمیں ہر طرف سے  گھیر کر ہمارا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ خوابوں کو اپنا سب سے قیمتی اثاثہ سمجھیں اور ان کی حفاظت کریں۔خوابوں کو راز چاہے نہ رکھیں لیکن لوگوں سے ان پر بے وجہ تبادلۂ خیال مت کریں، خاص طور پر ایسے لوگوں سے جو آپ کے خواب سن کر ہنسنے لگیں کیونکہ ان میں خود کچھ بڑا سوچنے اور آگے بڑھنے کی جرات نہیں ہوتی۔ آپ کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کس شخص سے بات کرنا ٹھیک رہے گا؟ زیادہ تر خواب اور منصوبے اپنی پہلی سانس سے قبل دم توڑ جاتے ہیں کیونکہ زیادہ تر ایسے خواب منفی لوگوں کو قابلِ عمل نظر نہیں آتے۔ آغاز کے مرحلے میں انسان ایسے خوابوں کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور شکوک و شبہات بڑھ جاتے ہیں۔لاشعوری و عمومی طور پر آپ ایسے خوابوں کو ترک کردیتے ہیں۔ اس لیے منفی لوگوں سے خوابوں پر گفتگو کرنے میں احتیاط برتیں۔

گردوپیش سے مراد آپ کے اردگرد کا ماحول ہے۔ پاکستان پہنچنے کے کچھ ماہ بعد میں نے یہاں کے نیوز چینلز دیکھنا چھوڑ دئیے کیونکہ ہر روز منفی خبریں پھیلانے کا کام تیزرفتاری سے جاری تھا۔ چینلز بدلتے رہیں جب تک کہ آپ کو کوئی مثبت خبر نہ مل جائے۔ انسان کو اس کی مثبت ذہنیت ہی کامیاب بناتی ہے۔ معاشی نظریات، کاروباری ذہانت اور تخلیقی خیالات دماغ سے پیدا ہوتے ہیں جسے منفی باتوں سے نقصان پہنچتا ہے۔ کبھی یہ نہ سوچیں کہ ایسی منفی باتیں آپ کے ذہن میں مثبت نتائج پیدا کرسکتی ہیں۔ دماغ اللہ کا وہ تحفہ ہے جسے ایک کمپیوٹر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسے جو اِن پٹ ملتی ہے، وہ اسی کا نتیجہ تیار کرتا ہے۔اگر آپ منفی سوچوں سے گھرے ہوئے ہوں تو دماغ بھی منفی منصوبے بنائے گا۔ لاشعور آپ کا غلام ہوتا ہے جسے پتہ نہیں کہ کرنا کیا ہے۔ یہ صرف آپ سے حکم لیتا ہے اور نتائج برآمد کرنے پر کام کرنے لگتا ہے۔ احکامات آپ کے خیالات کی صورت میں اس تک پہنچتے ہیں۔ اگر لاشعور منفی سوچوں کا مرکز بن جائے تو حتمی نتیجہ منفی صورت میں برآمد ہوگا۔

کبھی چھوٹے قدم یا کم قیمت سازوسامان میں شرم محسوس نہ کریں کیونکہ اس کا تخلیق کار اللہ تعالیٰ ہے۔ حد یہ ہے کہ خود انسان ایک چھوٹی سی شکل میں پیدا ہوتا ہے اور پھر آگے بڑھتا ہے۔ کاروبار بھی وقت کے ساتھ ساتھ پھل پھول سکتا ہے۔ چھوٹے یا بڑے قدم کی تمیز بھول جائیں۔ صرف کوششوں اور نتائج پر توجہ دیں۔

زندگی میں کامیابی کا کوئی سخت اور تیر بہدف یا تیزرفتار طریقہ نہیں ہے۔ کچھ چیزیں کچھ کامیاب لوگوں کیلئے مفید ثابت ہوتی ہیں اور بہت سے افراد کیلئے کوئی اور بات کامیابی کی ضمانت ثابت ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کامیاب لوگ خوش امید ہوتے ہیں۔ مثبت لوگوں کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی ہے۔ وہ دنیا کو مثبت انداز میں سلام کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ نیو جرسی میں تعلیم کے دوران میں کے مارٹ میں کام کرتا تھا اور کپڑوں کو قیمتوں کے ٹیگز لگاتا تھا۔ میں کارٹن اٹھاتا اور انہیں اسٹور روم میں رکھنے کا کام بھی کرتا تھا۔ 

اس کے علاوہ اپنے محکمے کے فلورز کی صفائی بھی کردیتا تھا۔ کے مارٹ ہوم ڈپو کے بارڈرز بک اسٹور کی ملکیت میں تھا اور یہ 32 ارب ڈالر کی انڈسٹری جوزف انتوننی نامی شخص چلا رہا تھا۔ کافی سال بعد میں نے وال اسٹریٹ پر جب اپنا سرمایہ کاری بینک شروع کیا اور جوزف انتوننی سے ایک ڈیل کیلئے ملا تو انویسٹمنٹ بینکرز کے ہجوم سے بھرے کمرے میں گفتگو کے دوران میں نے انہیں بتایا کہ میں آپ کے ہاں معمولی ملازمت کرتا تھا اور فرش اور میز کرسیاں بھی صاف کیا کرتا تھا۔ ایک انویسٹمنٹ بینکر کے طور پر جوزف انتوننی نے میری بہت تعریف کی اور بہت خوش ہوا جس کے بعد ہم دوست بن گئے۔ اگلے ہی سال جوزف میرے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن بن گیا۔دوسروں سے جلنے اور حسد کرنے والے افراد کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ دوسروں کی کامیابی پر خوش ہونا نہیں جانتے تو اللہ آپ کو اپنی کامیابی نہیں دے گا۔ یہ کائنات کا قانون ہے۔ آپ جو دوسروں کو حاصل کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ آپ بھی اسے حاصل کرسکیں۔

اپنی نگاہیں اپنے مقاصد پر مرکوز رکھیں، کون آپ سے آگے جارہا ہے، کسے آپ نے پیچھے چھوڑ دیا، یہ باتیں چھوڑ دیں کیونکہ زندگی ایک سے زیادہ شرکاء کے ساتھ دوڑنے کا نام نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ آپ کا خود آپ کے ساتھ مقابلہ ہوتا ہے، صرف آپ۔ دوسرا کوئی نہیں۔ 

Related Posts