سندھ اور وفاق آپس میں لڑ پڑے،عوام راشن سے محروم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ایسے موقع پر سیاسی گولہ باری کی جا رہی ہے جب ملک میں لاک ڈاؤن کے باعث سفید پوش طبقہ اپنی عزت نفس بچانے اور اپنے زیر کفالت اہل خانہ کا پیٹ بھرنے کے جتن کرنے میں مشغول ہے۔

اس کی ابتدا ء وفاقی وزرا ء اور خصوصاََ کراچی سے منتخب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ نے کی تھی ، جس وقت سندھ حکومت نے کورونا وائرس سے متاثرہ پہلا کیس سامنے آیا تو حکومت سندھ نے فوری اقدامات شروع کر دیے تھے اور تیزی سے اسپتالوں میں کورونا وارڈ بنانے کے ساتھ قرنطینہ سینٹرز بنانا شروع کر دیے تھے۔

دوسرے مرحلے میں سندھ کی مارکیٹیں اور بازاروں کے ساتھ تمام دوکانیں بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔ کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا۔

اس بات سے انکار نہیں کہ سندھ حکومت نے بظاہر تمام امور مناسب انداز میں مکمل کیےتاہم لاک ڈاؤن کے مضمرات کا تذکرہ تو کیا گیا مگر ان مسائل کا تدارک ممکن نہیں بنایا گیا جس سے یومیہ اجرت کمانے والے متاثرین کو زیر کفالت اہل خانہ کی کفالت کے لیے راشن فراہم کرنے میں انتہائی سست روی اور غیر مناسب طریقہ کار نے اس کام کو انتہائی الجھا کر رکھ دیا۔

اس کوتاہی کے باعث وفاقی حکومت کے اراکین پارلیمنٹ کو سندھ حکومت نے موقع فراہم کردیا کہ وہ سیاسی توپوں کا رخ سندھ حکومت کی جانب کردیں ، اس لفظی گولہ باری کے بعد حکومت سندھ کے وزرا بھی جوش میں آگئے اور انہوں نے بھی وفاقی حکومت کے غیر سنجیدہ اقدامات کو میڈیا پر میزائل بنا کر وفاقی حکومت پر داغنے شروع کردیے۔

اگر آپ باغور جائزہ لیں تو جب آپ کچھ اچھا نہیں کرتے تو دوسرے پر الزام تراشی بہت اچھے سے کرنا شروع کر دیتے ہیں ، پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور پھر سندھ حکومت نے بھی اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں اور خامیوں کی پردہ پوشی کے لیے سیاسی گولہ باری کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ایک ماہ سے لوگ بے روزگار اور بھوک و افلاس کی تصویر بنے سرکاری امداد اور راشن کا انتظار کر رہے ہیں مگر حکومتیں ہین کہ کوئی چھوٹا سا کارنامہ انجام دے کر اس کا ڈھنڈوراپیٹنے کے ساتھ مخالفین کے خلاف لفظی گولہ باری سے تواضح کرتے نظر آتے ہیں،سندھ اور وفاقی حکومتیںمستحقین کو راشن کی فراہمی میں مجرمانہ تاخیر کر رہی ہیں ۔

سندھ حکومت نے ضلعی انتظامیہ کو کروڑوں روپے فراہم کیے ، اس کا مقصد مستحقین کو راشن فراہم کرنا تھا مگر ضلعی انتظامیہ ( ڈپٹی کمشنرز ) نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مبینہ طور پر کروڑوں کا چونا لگا دیا ہے، کراچی کے 6اضلاع سے اندورنی ذرائع نے یہ خبر دی ہے کہ لاکھوں لوگوں کی رجسٹریشن کی گئی تھی اور حیرت انگیز طور پر سندھ حکومت کی جانب سے جاری کی گئی رقم سے بھی زائد کا راشن تقسیم کرنے کا دعویٰ کر دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے ضلع وسطی ، جنوبی اور کورنگی میں واضح طور پر خرد برد نمایا ہے، مستحقین آج بھی راشن کا انتظار کر رہے ہیں مگر راشن ہے کہ ان تک نہیں پہنچ رہا۔اگر راشن مستحقین تک صوبائی حکومت نہیں پہنچا رہی تو وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کے کراچی و سندھ سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے بجائے مستحقین کی مدد کرنے کے سندھ حکومت پر انگلیاں اٹھانہ شروع کردیں۔

انکے اپنے حلقہ انتخاب میں لوگ بھوک سے بلک رہے ہیں ، مگر کراچی سے منتخب ہونے والے پی ٹی آئی اراکین اسمبلی اپنے حلقوں کی عوام کی داد رسی کرتے نظر نہیں آرہے ، بلکہ ان کے حلقے کے لوگ انہیں پکارتے ہی رہے اور جب انہیں میڈیا پر سندھ حکومت پر گولہ باری کرتے دیکھا تو انتہائی سخت الفاظ میں مذمت کرتے نظر آئے کہ جن کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی اکثریت سرمایہ دار ہے اور وہ چاہیں تو اپنے حلقہ انتخاب میں کسی کو بھوکا نہ سونے دیں مگر وہ ایسا نہیں کرتے کیوں کہ انہیں مخالفین کے خلاف گولہ باری کا ماحول نہیں بن سکے گا۔

اس ماحول بنانے کی کوشش میں اپنے حلقے کے عوام کی مدد کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔

کراچی کی تین کروڑ کی آبادی میں 2کروڑ افراد ایک ماہ کے لاک ڈاون میں مستحقین کی قطار میں پہنچ چکے ہیں ، وقت جیسے جیسے گزرتا جائے گا مستحقین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا، ابھی تک تو ایک ماہ کا راشن تمام لوگوں کو نہیں ملا توآئندہ ماہ دیگر بڑھتی ہوئی تعداد کو کیسے راشن مل سکے گا، پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے لفظی حملوں کے بعد جوب میں اب سندھ حکومت نے بھی لفظوں کے میزائل داغنا شروع کردیے ہیں۔

صوبائی وزرا کہہ رہے ہیں کہ وفاقی وزراء اور وزیر اعظم ( رونا وائرس ) میں مبتلا ہو کر مسلسل رو رہے ہیں۔ اس طرح حکومتیں اپنی خامیاں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈال رہی ہیں۔ حکومتوں کی اس جنگ میں ہار صرف عوام کی ہی ہوتی ہے، حکومتوں کی ناکامی بھی عوام کو ہی بھگتنا ہوتی ہے۔

ایسے میں بین الاقوامی اداروں کو پاکستانی پسماندہ عوام کی مدد کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اور دیگر مالیاتی اداروں کو پاکستان پر نظر کرم کرنا ہوگی۔ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان اسی صورت میں کورونا سے لڑ سکتا ہے جب اس پر سے قرضوں کا بوجھ ختم ہوجائے تاکہ اس کا جی ڈی پی بہتر ہو سکے اور شعبہ صحت میں پاکستان بہتر انداز میں آگے بڑھ کر کورونا سے لڑ سکے۔

Related Posts