گندم کے بحران سے معیشت کی تباہی تک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یہ کہنا کہ پاکستان کا زرعی شعبہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، عالمی فورمز پر کافی اچھا لگتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس بات کو بطور حقیقت ثابت کرسکتے ہیں؟ کیونکہ گندم کے بحران سے معیشت کی تباہی کا تعلق بہت گہرا ہے۔

ملک بھرمیں موجودہ گندم کا بحران اس یقین کو ہلا دینے کیلئے کافی ہے کیونکہ بہت سے کسان انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس سال گندم کی پیداوار 26 اعشاریہ 69 ملین ٹن ہوگی جس سے پتہ چلتا ہے کہ کسانوں نے ملک بھر میں عوام کی ضروریات پوری کرنے کیلئے سر توڑ محنت کی، اس کے باوجود انہیں پریشانی ستا رہی ہے تو ایسا کیوں ہے؟ حکومت کسانوں کیلئے کم ازکم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی)کا تعین کرتی ہے لیکن حکومت کی مقرر کردہ فی من کم از کم سپورٹ پرائس کسانوں کو نہیں دی جارہی جو اس وقت 3900 روپے فی من طے کی گئی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت خود بھی اپنی طے کردہ کم از کم سپورٹ پرائس پر کسانوں سے گندم خریدنے کو تیار نہیں، تو پھر کسان کیا کریں؟

مسئلہ شروع کہاں سے ہوا؟ دراصل اس کی مختلف پرتیں ہیں۔ گزشتہ برس ستمبر کے دوران ایک بڑی غلطی اس وقت ہوئی جب نگران حکومت نے 35 لاکھ ٹن گندم درآمد کر لی جو پاسکو نے نہیں، حکومت نے نہیں اور نہ ہی وزارتِ کامرس نے خریدی بلکہ نجی پارٹیز نے گندم امپورٹ کی اور انہوں نے امپورٹ بھی روس، یوکرین اور بلغاریہ جیسے گندم فروخت کرنے والے ممالک سے کی۔ یہیں سے اس مسئلے کا آغاز ہوا اور اب پاسکو کے پاس گندم کا 40 لاکھ ٹن کا ذخیرہ موجود ہے اور اب حکومت چاہتی ہے کہ وہ پہلے فروخت ہوجائے تاکہ نئی گندم کو اپنے ذخائر کا حصہ بنایا جاسکے۔ یوں حکومت گندم کی خریداری میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے اور جو گندم نجی سیکٹر نے خریدی تھی وہ اسے 3200 سے 3400 فی من پر فروخت کر رہے ہیں جو کہ حکومت کی طے کردہ قیمت 3900روپے فی من سے کہیں کم ہے۔ ایک طرف تو عوام اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سستی گندم خرید رہے ہیں تاہم دوسری جانب کسانوں کو شدید نقصان اور خسارے کا سامنا ہے جس کے بعد کسان حکومت سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہیں کہ کم از کم سپورٹ پرائس پر تو ان سے گندم خریدی جائے جو کوئی ناجائز مطالبہ نہیں ہے کیونکہ کسانوں کو کھاد کی قیمت، پانی کے بل، بجلی کے بل، گیس بل سمیت اپنی فصل کی اچھی خاصی قیمت دینی پڑتی ہے اور ان کا منافع کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور اگر وہ 3900سے کم پر گندم فروخت کردیں تو ان کیلئے اپنے خاندانوں کی کفالت کرنا انتہائی مشکل ہوسکتا ہے۔ پنجاب حکومت کے پاس فنڈز نہیں اور وفاقی حکومت گندم خریدنے کو تیار نہیں۔ پنجاب کی نگران حکومت نے 350 ارب روپے کے اخراجات کرکے گزشتہ برس قرض پر گندم لی تھی اور ابھی تک اس کا قرض ادا بھی نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کسانوں سے گندم خریدنے کیلئے پنجاب کو قرض لینے کی اجازت بھی دینے کو تیار نہیں ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے ہم پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ حکومت نے کسان ایسوسی ایشن کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ آپ کی گندم میں 10 فیصدسے 18فیصد تک نمی ہے، جب یہ خشک ہوجائے گی تو خرید لی جائے گی۔ حکومت کیلئے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی کیونکہ یہ صرف بہانے ہیں جو حکومت کی جانب سے بنائے جارہے ہیں۔ ہم گزشتہ سال کے رجحان سے جانتے ہیں کہ اب گندم اسمگل بھی ہوگی۔ اگر حکومت کسانوں سے گندم خریدنے کو تیار ہوجاتی ہے تو عوامی ضروریات پوری ہوسکیں گی اور کسان بھی خوش ہوجائیں گے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ حکومت کسانوں سے گندم کی خریداری کے لیے فنڈز مختص کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور ان کے نام نہاد مفادات یا فوائد کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں، اس طرح کسانوں کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

یہ کہنا نامناسب نہیں ہو گا کہ بدقسمتی سے ہماری آزادی کے 75 سال بعد بھی کسان غربت کے شکنجے میں ہیں لیکن دوسروں کی بقا کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ حالات کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی کی وجہ سے کسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ اب بھی گندم کا وہ بڑا ذخیرہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اب تک 50 فیصد سے زیادہ فصل کی کٹائی ہو چکی ہے۔ انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ بارشوں کے موسم کی وجہ سے نمی کے باعث ان کا ذخیرہ خراب ہو سکتا ہے اور شاید مستقبل میں ان کے پاس گندم کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی نہیں۔ اس کے علاوہ وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان سے وعدے کے مطابق گندم خریدے لیکن یہ بے سود ثابت ہوا۔ کسانوں کی ایسوسی ایشن نے مسئلہ کے حل کے لیے وزیر اعظم کے سامنے موجودہ صورتحال پیش کی ہے لیکن پھر بھی یہ معاملہ حل نہیں ہوسکا۔ 3900 روپے کی مقررہ قیمت پر خریداری کا کوئی ارادہ نہ ہونے کے باعث حکومت نے اسے کھلی منڈی کے لیے چھوڑ دیا ہے، اس لیے کسانوں کو مجبور کیا گیا ہے۔ اپنی گندم بہت کم قیمت پر فروخت کریں۔

کسان کافی پریشان ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے کہ وہ اپنے گندم کے ذخیرے کو بہت کم نرخوں پر اس خوف کے باعث بیچیں کہ گندم کی پوری فصل خراب ہو جائے۔ اس طرح کی صورتحال نے کسانوں کو معاشرے سے بد دل اور محروم کردیا بلکہ  ان کی سماجی اور معاشی بہبود کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ علاقائی سطح پر کنٹرول شدہ کم از کم امدادی قیمت کسانوں کو ہر سیزن میں گندم کاشت کرنے کی ترغیب فراہم کرتی ہے لیکن کسانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ کاشتکار اگلے سیزن میں گندم کی کاشت کے لیے اپنی بھرپور کوششیں کریں گے؟ کیا گندم کی پیداوار بڑھے گی؟ کسانوں کی اور اپنی بقا کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ دیگر ممالک موثر مداخلتوں اور مضبوط قیادت کے ساتھ گندم کے بڑے درآمد کنندگان سے بڑے برآمد کنندگان میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان میں سے، روس کی تبدیلی سب سے نمایاں مثال ہے، جو کبھی 80 کی دہائی کے وسط تک گندم کا سب سے زیادہ خسارہ والا ملک تھا لیکن اب امریکہ اور یورپی یونین سے آگے گندم برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔ پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کے اندازوں کے مطابق، ایک عام شہری کی روزانہ کی خوراک میں 60 فیصد گندم شامل ہوتی ہے، جو سالانہ 125 کلوگرام فی شخص کی شرح سے کھائی جاتی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ہم میں سے اکثریت کا انحصار گندم پر ہے، اور اس قسم کے بحران پر اگر قلیل مدت میں قابو نہ پایا گیا تو طویل مدت میں ہمیں ایک مشکل صورتحال میں ڈال سکتا ہے جو بالآخر سیاسی بدامنی اور ہمارے غیر ملکی ذخائر میں نمایاں کمی کا سبب بن سکتا ہے جو ملکی معیشت کیلئے کسی بڑے دھچکے سے کم نہ ہوگا۔

Related Posts