پاک چین اقتصادی راہداری، امریکا کی تشویش؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان کے لیے ایک اہم منصوبہ ہے جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی)  کا حصہ  ہے۔ اس منصوبے کی دنیابھر میں  مالیت کا تخمینہ تقریباً 4 ٹریلین ڈالر ہے، چین پہلے ہی تقریباً 1 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر کرچکا ہے۔ سی پیک  کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی کو جغرافیائی سیاسی مسابقت، خاص طور پر چین اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے دیکھنا ہوگا۔

دراصل امریکہ اور چین دونوں کے خطے میں اہم مفادات ہیں، جس کی وجہ سے مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے۔پاکستان کا مقصد چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بین الاقوامی اصولوں کے مطابق متوازن رکھنا ہے۔چین مختلف شعبوں بشمول کثیرالجہتی فورمز، اقتصادیات اور فوجی تعاون میں پاکستان کا ایک مستحکم اتحادی رہا ہے۔اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے، خاص طور پر تجارت اور سرمایہ کاری میں جبکہ پاکستان نے پہلے بھی انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں امریکہ کے ساتھ تعاون کیا، حالانکہ اس کے نتائج کچھ ملے جلے تھے اور وقت نے ثابت کیا کہ  کافی عرصے بعد معاشرے پر اس کے  مثبت کی بجائے منفی نتائج ہی مرتب ہوئے۔

پاک چین تعلقات اور دوستی سمندر سے زیادہ گہری اور ہمالیہ سے زیادہ بلند ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا چین کا آئندہ دورہ جاری مصروفیت اور تعاون کی نشاندہی کرتا ہے۔حالیہ ملاقاتوں کے دوران ہونے والی بات چیت میں اقتصادی زونز اور انفراسٹرکچر سمیت  سی پیک  کے دوسرے مرحلے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔سی پیک منصوبوں میں پاکستان اور چین دونوں کے لیے سیکیورٹی بدستور اولین ترجیح ہے۔سی پیک  سے  نقل و حمل کے راستے مختصرہوئے جس سے  چین کا اسٹرٹیجک خدشہ کم ہوا۔

تاہم امریکا، روس اور چین کے مابین خلائی عسکریت پسندی کے بارے میں خدشات وسیع تر جغرافیائی سیاسی تناؤ کو نمایاں کرتے ہیں۔ سی پیک  چین کے اقتصادی اور بین الاقوامی  مفادات کے لیے اہم ہے، جس سے نقل و حمل کےراستوں(روٹس) پر مخالف ممالک سے  خطرات  کو نمایاں طور پر کم کیا جا رہا ہے۔پاکستان کو چین، امریکہ اور ان کے متعلقہ اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو احتیاط سے آگے بڑھانا ہوگا۔ پاکستان مختلف علاقائی تنظیموں کا رکن ہے اور اپنے تزویراتی محل وقوع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

چین کی اقتصادی اور فوجی ترقی، اس کے سٹریٹجک اتحادیوں  کے ساتھ  پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے چیلنجز کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستان کا محل وقوع اسے بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان طاقت کے توازن میں ایک مرکزی نقطہ بناتا ہے۔چیلنجوں کے باوجود پاکستان اب تک اپنی خارجہ پالیسی کے ہچکولوں سے بچانے میں کم و بیش کامیابی حاصل کر رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے آئندہ دورہ چین سے دوطرفہ تعلقات اور تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی توقع ہے۔

حال ہی میں  وزیراعظم شہباز شریف سے پاکستان میں چینی کمپنیوں کے نمائندوں کے وفد نے ملاقات کی  جس میں پاکستان چین جے سی سی اجلاس پر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بریفنگ دی، چینی کمپنیوں کے نمائندوں نے پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاک چین دیرینہ اور برادرانہ تعلقات وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہورہے ہیں، چین پاکستان کی ترقی میں اہم شراکت دار ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ چینی شہریوں کی سکیورٹی اور تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے، چینی شہریوں کی فول پروف سکیورٹی کے لیےتمام ممکنہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔وزیراعظم نے چینی کمپنیوں کو خصوصی اقتصادی زونز میں بی ٹوبی انتظام کے تحت صنعتیں لگانےکی ترغیب دی اور چینی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پاکستان میں اپنی صنعتیں قائم کرنے کی دعوت دی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ سی پیک، فیز 2 سے متعلق بھرپور تیاری کررہے ہیں، آنے والے دورہ چین کا محور سی پیک  فیز 2 اور معاشی تعلقات کا مزید فروغ ہوگا، چین نے جس طرح 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ برآمدات بڑھانے کے لیے چینی تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، سی پیک کےاگلے مرحلےکے لیے ہمیں اپنی افرادی قوت کو بہترین تکنیکی و فنی تربیت دینی ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد میں پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک پر قائم مشترکہ ورکنگ کمیٹی کے 13 ویں اجلاس میں کراچی تا پشاور ریلوے لائن کو جدید بنانے کے منصوبے ایم ایل ون کی بڈنگ پر اتفاق کرلیا گیا۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ سی پیک کے تحت ایم ایل ون منصوبے کی بڈنگ پر اتفاق ہوا ہے جسے وزیر اعظم کے دورہ چین کے دوران حتمی شکل دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم ایل ون کے منصوبے پر 6 ارب 80 کروڑ ڈالر لاگت آئے گی، یہ منصوبہ مرحلہ وار مکمل ہو گا۔ اجلاس میں پاکستان اور چین کے درمیان پن بجلی کے 1800 میگاواٹ منصوبوں کی تکمیل سمیت سی پیک کے دوسرے فیز کے تحت زرعی صنعتی اور مائننگ کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ سی پیک کے تحت پاکستان میں لگائے گئے چین کے بجلی منصوبوں کے پاکستان کی طرف بقایاجات 500 ارب روپے سے زائد ہو چکے ہیں۔

بظاہر امریکا جیسی سپر پاور کو سی پیک سے کوئی خطرہ نہیں لیکن عالمی سطح پر امریکا کااثر رسوخ جس تیزی کے ساتھ کم اور چین کا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس معاملہ فہم رفتار کے ساتھ بڑھا ہے، وہ مغربی قوتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے ۔ سب چاہتے ہیں کہ اگر چین کو بات چیت سے روکا نہیں جاسکتا تو عملی اقدامات اٹھائے جائیں اور امریکا کی جانب سے چینی مصنوعات کی درآمدات و برآمدات پر قدغنیں بھی اسی پالیسی کا حصہ ہیں لیکن  وقت کسی طاقتور یا کمزور کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ صرف اور صرف قابلیت اور صلاحیت کی داد دیتا ہے۔

سادہ الفاظ میں کہا جائے تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا سی پیک کو چین جیسی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کیلئے زبردست آسانیاں پیدا کرنے والے منصوبے کے طور پر دیکھ رہا ہے جس کیلئے تحفظات کا اظہار پاکستان کو کبھی کھل کر اور کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں لیکن آئی ایم ایف کے بھاری بھرکم قرض اور ہر گزرتے سال کے ساتھ ڈانواں ڈول ، ہچکولے کھاتی اور ڈوبتی ہوئی معیشت کے حامل پاکستان کو سی پیک کی صورت میں اپنے مستقبل کی بہتری کی امید نظر آرہی ہے اور ہم ذاتی مفاد کی خاطر مجموعی اور قومی مفاد سے پیچھے ہٹنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

Related Posts