بے مقصد جلسے اور استعفوں کا حربہ ناکام،کیا پی ڈی ایم اپنے اختتام کو پہنچ گئی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

20 ستمبر 2020 کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیخلاف وجود میں آنے والے اپوزیشن اتحاد کے احتجاج کا پہلا مرحلہ 13 دسمبر کو لاہور میں مینار پاکستان پر جلسے کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ گیا، مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں پی ڈی ایم قیادت نے مختلف شہروں میں جلسے منعقد کیے اور تقریباً 3 ماہ کی دوڑ دھوپ کے بعد اب اپوزیشن قیادت نے مذاکرات نہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے لانگ مارچ کا عندیہ دے دیاہے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا قیام
اپوزیشن جماعتوں نے 2018ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے حکومت کے خاتمے کیلئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اپوزیشن اتحاد تشکیل دیا، اس اتحاد کے سربراہ امیر جے یو آئی (ایف) مولانا فضل الرحمان، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی جنرل سیکریٹری، راجہ پرویز اشرف سینئر نائب صدر اور اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین کو ترجمان مقرر کیا گیا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک میں پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف) ، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) ، عوامی نیشنل پارٹی (ولی)،جمعیت اہل حدیث، جمعیت علمائےپاکستان، نیشنل پارٹی (بزنجو) ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی شامل ہے۔

اپوزیشن اتحاد کے جلسے
مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ سے پی ڈی ایم احتجاج کے اکھاڑے میں اتری اور 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں پہلا جلسہ منعقد کیا ۔اس کے بعد 18 اکتوبر کو کراچی، 25 اکتوبر کو کوئٹہ، 22 نومبر کو پشاور، 30 نومبر کو ملتان اور 13 دسمبر کو لاہور مینار پاکستان پر اپنا آخری جلسہ منعقد کیا۔

حکومت نے ابتدائی طور پر اپوزیشن کے احتجاج کے سامنے بند باندھنے کیلئے جلسوں کی اجازت دینے سےانکار کیا اور مختلف حیلوں سے رخنے ڈالنے کی بھی کوشش کی گئی تاہم سینئر حکومتی قیادت کے مشوروں کے بعد حکومت نے اپوزیشن کو ملتان اور پھر ملتان میں جلسوں کی اجازت تو نہیں دی لیکن روکا بھی نہیں گیا۔

اپوزیشن کے استعفے
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کسی بھی صورت حکومت کو گھر بھیجنے کی خواہاں ہے اور اپوزیشن قیادت نے اس تحریک کے دوران اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کئی مواقع پر ایسا ماحول پیدا کردیا کہ شائد حکومت ابھی گر جائے گی تاہم اپوزیشن کے ستارے گردش میں رہے جس کی وجہ سے حکومت اپنے پیروں پر کھڑی رہی اور احتجاجی تحریک سے حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگ سکی جس کے بعد اپوزیشن قیادت نے استعفوں کا شوشہ چھوڑ دیا اور 13 دسمبر کے جلسے میں آر یا پار جیسے الفاظ کا استعمال کرکے کسی بہت بڑے معرکے کی نوید سنائی تاہم گزشتہ روز ہونیوالے جلسے میں قیادت استعفوں کا معاملہ گول کر گئی۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے درجنوں ارکان اپنی اپنی پارٹی قیادت کو اپنے استعفے دے چکے ہیں تاہم کراچی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کے کئی اراکین نے اپنی ہی قیادت کے ساتھ چالبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے استعفے سوشل میڈیا پر تو شیئر کردئیے لیکن عملی طور پر پی پی پی اراکینِ اسمبلی کے استعفے بلاول ہاؤس کو موصول نہیں ہوسکے ۔ اسی طرح ن لیگ کے ارکان کے استعفوں کا معاملہ بھی تاحال ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

لانگ مارچ کا حربہ
پی ڈی ایم نے حکومت کو گھر بھجوانے کیلئے دھوم دھام سے لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن قیادت لانگ مارچ پر بھی استعفوں کی طرح متفق نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے ایک بار پھر تاریخ دینے کے بجائے جنوری کے آخر یا فروری میں لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے، سیاسی جماعتوں کی طرف سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کئی لانگ مارچ ہوچکے ہیں، کچھ میں کامیابی ملی تو کچھ میں ناکامیوں کا منہ بھی دیکھنا پڑا۔

سال 2007ء میں صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میںچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کیلئے وکلاء تحریک نے سیاسی تحریک کی شکل اختیار کرلی ۔ جنوری 2013 میں تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا۔

2014 میں پی ٹی آئی نے 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کیخلاف آزادی مارچ کا آغاز کیا اورریکارڈ 126 دن تک پارلیمنٹ کے باہر ڈیرے ڈالے لیکن سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد یہ طویل دھرنا ختم ہوگیا اورنوازشریف کی حکومت بدستور قائم رہی ۔ پھر موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان امپائر سے مایوس ہوکر واپس پویلین لوٹ گئے۔

سینیٹ الیکشن
پاکستان کی سیاست میں ہلچل کو آئندہ سال مارچ میں ہونیوالے سینیٹ الیکشن کے ساتھ نتھی کیا جارہا ہے۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو سینیٹ الیکشن سے قبل کسی نہ کسی طرح گھر بھیجنا چاہتی ہیں کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی کو دونوں ایوانوں میں اتحادیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن سینیٹ الیکشن کے بعد صورتحال تبدیل ہوجائیگی۔

یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کسی بھی طرح حکومت گرانے کے درپے ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے مجموعی ایک ہزار 90 قانون سازوں میں سے 494 کا تعلق پی ڈی ایم کی جماعتوں سے ہے اور اگر پی ڈی ایم اراکین استعفے دے بھی دیں تو 45 فیصد الیکٹورل کالج متاثر ہوگا اور سندھ کے علاوہ سینیٹ کا 50 فیصد سے زیادہ الیکٹورل کالج موجود ہوگا۔

مارچ2020 میں سینیٹ کے 104 میں سے 54 اراکین 6 سالہ مدت پوری کرکے ریٹائر ہورہے ہیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین سینیٹرز کے انتخاب کے لیے اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں اور اگر پی ڈی ایم استعفے دیتی ہے تو ضمنی انتخابات کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت کی حد 90 دن ہے لیکن کسی بھی بحران سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان جلد انتخابات کرا سکتا ہے ۔

ایسے میں حکومت کے بقول پاکستان تحریک انصاف ضمنی الیکشن میں مزید سیٹیں جیت کر زیادہ مضبوط ہوجائے گی، اس لئے پی ڈی ایم کے استعفوں سے حکومت کے بجائے اپوزیشن کو زیادہ نقصان ہوگا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم لانگ مارچ کیلئے کیا حکمتِ عملی اپناتی ہے اور یہ لانگ مارچ حکومت کو کتنا متاثر کرتا ہے۔

Related Posts