او آئی سی کا اجلاس، مسائل، امیدیں اور توقعات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

OIC meeting, issues, hopes and expectations

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان سعودی عرب کی دعوت پر 41 سال کے بعد کل او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے جس کامقصد، لاکھوں افغانوں کو درپیش انسانی بحران کے تدارک اور ان کی معاونت کی جانب عالمی برادری کی توجہ لانا ہے جبکہ اجلاس سے پہلے آج وزرائے خارجہ کی کونسل کے سینئر عہدیداروں کی میٹنگ ہوگی۔

او آئی سی کیا ہے
او آئی سی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا قیام 21 اگست 1969ء کو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملے کے ردعمل کےطور پر 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا اور اس میں مشرق وسطیٰ، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی دنیا بھر کے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔

اجلاس کاایجنڈا
اجلاس میں افغانستان میں معاشی و اقتصادی بحران سے نمٹنے پر غور کیا جائے گا، افغانستان میں خوراک و ادویات کی قلت اور بے گھر افراد کی مدد کا جائزہ لیا جائے گا۔

کانفرنس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہو گی۔ پہلا سیشن دن ساڑھے گیارہ سے ساڑھے بارہ بجے تک ہو گا جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مندوبین کو خوش آمدید کہیں گے جس کے بعد سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود تنظیم کےسربراہ کے طور پر اپنا خطاب کریں گے۔

اس کے علاوہ او آئی سی کے سیکریٹرل جنرل حسین ابراہیم طہ، تنظیم کے علاقائی گروپس کے نمائندگان اور اسلامی ترقیاتی بینک کے صدر ڈاکٹر محمد الجاسر بھی خطاب کریں گے۔سیشن کے آخر میں وزیراعظم عمران خان کا کلیدی خطاب ہوگا۔ اس کے بعد تنظیم کا ان کیمرہ اجلاس شروع ہو جائے گا۔

شریک ممالک
او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور مبصرین کے علاوہ اقوام متحدہ کے نمائندے، بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس، جرمنی، اٹلی، جاپان سمیت بعض غیر رکن ممالک خصوصی دعوت پر اجلاس میں شرکت کریں گے۔

بعد ازاں پاکستان، چین، روس اور امریکا اور پی فائیو ممالک جن میں جرمنی، جاپان، اٹلی اور آسٹریلیا شامل ہیں ، ان کے افغان صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے اجلاس منعقد ہوں گے۔ 22کلیدی ممالک کے وزرائے خارجہ‘ قطر کے وزیر مملکت برائے خارجہ اور 8او آئی سی ممبر ملکوں کے وفود نے اپنی شرکت کی تصدیق کی ہے۔

کیا افغانستان بھی شریک ہوگا
پاکستان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ اجلاس میں افغانستان کی عبوری حکومت کی بھی نمائندگی ہوگی، اجلاس میں افغانستان میں انسانی المیے کے حوالے سے غور کیا جائے گا۔اجلاس میں شرکت کرنے والے افغان وفد کی قیادت عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کر رہے ہیں۔

او آئی سی کا موقف
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین براہیم طہ کاکہنا ہے کہ دنیا افغانستان کو تنہا نہ چھوڑے، مسلمان ممالک اس نازک وقت میں اپنے افغان بھائیوں کی مدد کے طریقوں پر غور کریں۔انہوں نے پاکستان پہنچنے کے بعد اجلاس کے انتظامات کا جائزہ لیا اورانکے بقول پاکستان نے پرامن اور مستحکم افغانستان کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کاکہنا ہے کہ او آئی سی اجلاس کا مقصد لاکھوں افغانوں کو درپیش انسانی بحران کے سدباب اور انسانی بنیادوں پر انکی معاونت کی جانب عالمی برادری کی توجہ دلانا ہے۔ وزیرخارجہ کے بقول ہماری کاوشیں بارآور ثابت ہو رہی ہیں اور عالمی برادری نے افغانستان کی جانب توجہ دینا شروع کر دی ہے کیونکہ اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو گزشتہ 20 سال سے استحکام اور امن کیلئے کی گئی ساری کوششیں خاک میں مل جائیں گی۔

امیدیں اور توقعات
افغانستان میں طالبان کے غلبے کے بعد پاکستان کی جانب سے افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں کے تحت ہی بیرونی دنیا سے روابط کئے گئے اور پاکستان کی میزبانی میں چین، امریکہ اور روس پر مشتمل ٹرائیکا پلس اجلاس کا انعقاد ہوااور مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور جامع حکومت کیلئے اقدامات بروئے کار لانے پر زور دیا گیا۔

اس وقت بھی اقوام عالم کا ماننا تھا کہ افغانستان معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اس لئے عالمی برادری اسکے منجمد وسائل تک رسائی اور ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائے،ماضی کی غلطیاں دہرانے سے گریز کرے اور مثبت رویہ جاری رکھے۔

او آئی سی کے اس غیر معمولی اجلاس کے بعد امید ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں ابھرتے ہوئے بحران پر قابو پانے کیلئے ضرورت اقدامات کرے گی جس سے کسی نئے انسانی المیہ کو روکنے میں مدد ملے گی۔

Related Posts