الیکٹرانک ووٹنگ مشینز پر اعتراض

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے مابین الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (ای وی ایم) کے استعمال پر نئے تنازعے نے جنم لے لیا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے عام انتخابات میں دھاندلی اور دیگر بے ضابطگیوں کے خاتمے کیلئے ان مشینز کو واحد حل قرار دے دیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال پر کم و بیش 37 اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ سافٹ وئیر باآسانی ہیک کیا جاسکتا ہے جس سے دھاندلی کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں۔ جب تک حکومت ای وی ایم کے استعمال پر الیکشن کمیشن کے اعتراضات اور دیگر مجوزہ شرائط پوری نہیں کرتی، فیصلے میں عملدرآمد میں متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

ای سی پی کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کی خریداری اور تمام آپریٹرز کو تربیت دینے کیلئے عام انتخابات کے انعقاد سے قبل دیا گیا وقت ناکافی ہے۔ بیلٹ کی رازداری، صلاحیت، مشینوں کی حفاظت سمیت دیگر مسائل کے حل کو بھی ضروری قرار دے دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ مشین ٹرن آؤٹ، انتخابی دھوکہ دہی، ووٹ خریدنے، ہارس ٹریڈننگ اور پولنگ عملے کی بدعنوانی نہیں روک سکتی۔ ایک اور بڑ اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ پورے الیکشن کو ایک ہی روز کروانا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تیاری کی ذمہ دار وزارتِ سائنس نے الیکشن کمیشن کے تمام تر اعتراضات مسترد کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ 2023 کے عام انتخابات تو صرف ای وی ایم کے ذریعے ہی ہوں گے۔ تاہم، الیکشن کمیشن کی اس عمل میں ہچکچاہٹ نے اسے حکومت سے ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن کردیا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اعتماد میسر آیا جو انتخابی اصلاحات کا عمل پہلے ہی مسترد کرچکی ہیں۔

دراصل امریکا، برطانیہ اور بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک گزشتہ کئی دہائیوں سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کا استعمال کرتے آئے ہیں جس سے ووٹنگ کی گنتی تیز تر ہوتی ہے۔ ووٹرز کا وقت بچتا ہے اور طویل مدتی اخراجات بتدریج کم ہوجاتے ہیں۔ کچھ خدشات ضرور ہیں کہ سافٹ وئیر ہیک ہوسکتا ہے تاہم سائبر سیکیورٹی کے ماہرین یہ مسائل حل کرسکتے ہیں۔

دنیا بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر اعتراضات اٹھتے رہے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ سابق صدر ٹرمپ نے بھی صدارتی انتخابات ہار جانے کے بعد امریکا کے انتخابی نظام کو بدنام کیا۔ تاہم انتخابی نظام کی شفافیت پر کسی نے شک نہیں کیا۔ ضروری یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال مسترد کرنے کی بجائے تمام فریقوں کے تحفظات دور کرنے پر کام تیز کیا جائے تاکہ آئندہ انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں منعقد ہوسکیں۔ 

Related Posts