نیب نے آئیسکو میں اربوں کی خردبرد کی مزید تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کردیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نیب نے آئیسکو میں اربوں کی خردبرد کی مزید تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کردیں
نیب نے آئیسکو میں اربوں کی خردبرد کی مزید تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کردیں

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو(نیب) نے آئیسکوشعبہ ریونیو میں اربوں روپے کی خرد برد سکینڈل ابتدائی تحقیقات کے بعد وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) کو اعلیٰ سطحیٰ تحقیقات کرکے کاروائی کرنے کے لیے بھیج دیا ہے۔ 

، آئیسکو کے اعلیٰ افسران کی  ملی بھگت سے ریونیو دفاتر سے صنعتی اور بڑے صارفین کی سرکاری خزانے میں ہونے والی ماہانہ ادائیگیاں بینکوں کی جعلی مہریں لگا کرذاتی جیبوں میں ڈالی جاتی رہیں جبکہ اگلے ماہ سابقہ بل شامل ہونے کی شکایات لے کر آنے والے بڑے صارفین کو بل درستگیاں سرکاری خزانے سے کرکے دینے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ 

آئیسکو کی مشکوک فیکٹ فائنڈنگ انکوائری اور ملی بھگت سے ایف آئی اے نے تحقیقات کا  دائرہ محدود کرتے ہوئے 23کروڑ کی خُرد برد کا غیر شفاف مقدمہ پہلے ہی درج کیا تھا جس کے خلاف نیب سے رجوع کیا گیا تھا۔

دستاویزات کے مطابق قومی احتساب بیورو(نیب) نے 4فروری 2020کو ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) کو آئیسکوشعبہ ریونیو میں اربوں روپے کی خرد برد کا سکینڈل بھیجتے ہوئے ہدایت کی کہ ڈی جی ایف آئی اے اس کیس کی اعلیٰ اسطحیٰ انکوائری کرکے ملوث کرداروں کے خلاف کاروائی عمل میں لائیں۔

نیب کو یہ شکایت 10اکتوبر2019کو موصول ہوئی تھی لیکن اس میں جرائم  کی نوعیت ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ انتہائی باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آئیسکو شعبہ ریونیو سینٹر ون،ریونیو سینٹر ٹیکسلا اور ریونیو سینٹر بھارہ کہو میں بڑے صارفین اور صنعتی صارفین کی ادائیگیوں کو بینکوں کی جعلی مہریں لگاکر خرد برد کیا گیا۔ 

ادائیگیاں مبینہ طور پر جیب میں ڈال کر بل درستگیاں سرکاری خزانے سے کرنے کے حوالے سے سیکنڈل سامنے آنے پر ایف آئی اے نے چھاپہ مار کر تین آئیسکو شعبہ ریونیو کے ملازمین کو گرفتار کرکے تحقیقات شروع کر رکھی ہیں اور متعلقہ ریکارڈ بھی قبضہ میں لے لیا ہے۔

دوسری جانب  آئیسکو افسران کی ملی بھگت سے بھاری نذرانے لے کر اس کیس کا دائرہ کار 2014کے بجائے2018تک محدود کر دیا گیا  جس کے باعث اربوں روپے کی کرپشن کو محض 23کروڑ روپے ظاہر کرکے دھوکا دہی کی گئی۔

ابتدائی طور پر2018تک بھی مبینہ 1ارب 23کروڑ کا خُردبُردپکڑا جا چکا تھا جو آڈٹ ٹیم کی نشاندہی پر ریونیو آفیسر مبشر کے تحریری انکشاف کے بعد شروع کیا گیا  جبکہ دیگر ملوث ریونیو آفسزمیں بھی چھان بین کے بجائے ایف آئی اے نے جیبیں گرم کر لیں جہاں سے مبینہ 6ارب روپے سے زائد کی خُرد بُرد کا سکینڈل سامنے آنا متوقع تھا۔

ذرائع کے مطابق ریونیو آفس ون میں ایف آئی اے نے چھاپہ مار کر ریونیو ریکارڈ سی پی 64کے انچارجز کمرشل اسسٹنٹ مبینہ خالد اور رفیق کو گرفتار کرکے ریکارڈ بھی قبضہ میں لے کر تحقیقات کیں جبکہ کمرشل اسسٹنٹ راشد کی گرفتاری ہائیدرو یونین کے دباؤ پر التوا کا شکار رکھی گئی۔

اس کے بعد ایف آئی اے نے چھاپہ مار کر ریونیو آفس ٹیکسلا سے بھی کمرشل اسسٹنٹ کو گرفتار کرکے ریکارڈ قبضہ میں لے لیا اور بھارہ کہو ریونیو آفس سے بھی ریکارڈ قبضہ میں لیا گیا۔

مزید یہ کہ ریونیو آفس چاندنی چوک،ریونیو آفس چکوال،ریونیو آفس مری سمیت دیگر ریونیو آفس سے بھی مزید گرفتاریوں کے بجائے جیبیں گرم کی جاتی رہیں کیونکہ اس حوالے سے ملوث افسران اور سی بی اے یونین ایف آئی اے کی جیبیں گرم کرنے میں معاونت کرتے رہے اور اب اس بد ترین کرپشن کو دبانے کے لیے متحرک ہیں۔

Related Posts