چار وزرا اعظم کے ساتھ گزرے لمحات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

چار وزرا اعظم کے ساتھ گزرے لمحات
چار وزرا اعظم کے ساتھ گزرے لمحات

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

(رائے ریاض حسین فیڈرل سول سروس میں انفارمیشن آفیسر کے طور پر شامل ہوئے، وہ مختلف اہم ذمہ داریاں نبھاتے رہے، چار وزیراعظم کے پریس سیکرٹری رہے، جاپان، سری لنکا اور بھارت میں پریس اتاشی رہے ، بعد میں ایم ڈی اے پی پی کے طور پر ریٹائر ہوئے، انہوں نے اپنی خودنوشت ”رائے عامہ “کے نام سے مرتب کی، جس میں بہت دلچسپ واقعات بیان کئے۔رائے صاحب کومیاں نواز شریف کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کا موقعہ ملا، وہ میاں صاحب کے مداح بھی ہیں، دوران ملازمت وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی، چودھری شجاعت کے ساتھ بھی کام کیا، بھارت میں پریس اتاشی کے طور پر انہیں خاصا کچھ دیکھنے کا موقعہ ملا، انہوں نے اس حوالے سے بھی دلچسپ مشاہدات بیان کئے ہیں۔)

اپنی کتاب میں رائے ریاض نے میاں نواز شریف کی ستائش کی ہے، وہ مختلف ادوار میں میاں صاحب کے ساتھ رہے اور بارہ اکتوبر 1999 ءمیں جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا تو رائے ریاض حسین وزیراعظم ہاﺅس ہی میں ذمہ داری نبھارہے تھے، گیارہ دن تک انہیں دوسرے کچھ لوگوں کے ساتھ وہیں محبوس رکھا گیا، انہیں صوفوں پر سونا پڑا۔ اس دن کی تفصیل بھی اپنی کتاب میں بیان کی، جس کا تذکرہ بعد میں کروں گا۔
رائے ریاض نے میاں شہباز شریف کا ذکر کرتے ہوئے ان کی ایڈمنسٹریشن کی تعریف کی اور کہا کہ ان کی پرفارمنس بہت اچھی تھی، مگر اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں وزیراعظم اور مرکزی حکومت کی بھرپور سپورٹ حاصل تھی۔ رائے ریاض کے مطابق:” شہباز شریف ایک ایڈمنسٹریٹر تھے ، لیڈر نہیں۔ لیڈر کی جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ صرف نواز شریف میں تھیں۔ مقتدر حلقوں نے بارہا شہباز شریف کو لیڈر بنانے کی کوشش کی مگر شریف فیملی کے اندرونی فیملی بانڈ اور نواز شریف کی شخصیت کے باعث شہباز شریف کو زیادہ آگے نہیں لایا جا سکا۔ بارہا میٹنگز میں دیکھا گیا کہ وہ بہت زیادہ بول رہے ہیں یا کسی ایشو پر جذباتی انداز میں بات کر رہے ہیں، مگر نواز شریف صرف ایک بار کہتے، شہباز اور پھر شہباز شریف کو سانپ سونگھ جاتا۔ “

رائے ریاض نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا، کہتے ہیں: ”نواز شریف کا دسترخوان بہت وسیع تھا، وہ مہمانوں اور سٹاف کو کھلا کر خوش ہوتے تھے بلکہ بااصرار کھلاتے تھے ، مگر شہباز شریف اس سے بالکل مختلف تھے۔ ایک بار وزیراعظم امریکہ کے دورے پر تھے،ایک دن شہباز شریف پرویز راٹھور جو کہ نواز شریف کے چیف سکیورٹی افسر تھے،اسے اور سفارت خانے کے ڈرائیور کو لے کر نکلے اور نیویارک کی سڑکوں پر پھرتے رہے۔ نیویارک کے ٹریفک کے نظام ، میونسپل کارپوریشن کی ورکنگ اور دیگر شہری سہولتوں کا جائزہ لیتے رہے۔ اس سارے عمل میں کئی گھنٹے گزر گئے ، پرویزراٹھور اس دوران تھکن اور بھوک سے بے حال ہوگئے۔ شہباز شریف نے ایک میکڈونلڈ کے سامنے رکنے کا کہا اور دو برگرز آرڈر کر دئیے۔ پرویز راٹھور کے بقول وہ دل میں شرمندہ ہوئے کہ پاکستانی سفارت خانے کا ڈرائیور کیا کہے گاکہ چیف منسٹر نے اس کے لئے برگر ہی نہیں لیا۔ مزے دار بات یہ ہوئی کہ برگر لے کر شہباز شریف پھر چل پڑے اور دونوں برگر خود کھا لئے، تقریباً شام کو ہوٹل واپس لوٹے جب ڈرائیور اور پرویز راٹھور بھوک اور تھکن سے بے ہوش ہونے والے تھے۔ “

چودھری نثار علی خان کے بارے میں رائے ریاض لکھتے ہیں کہ ان کی خوبیوں سے زیادہ خامیاں ان پر حاوی ہیں۔ان کی سب سے بڑی خامی ان کا بے پناہ غرور اور تکبر ہے۔بارہ اکتو بر ننانوے کو جب وزیراعظم میاں نواز شریف وزیراعظم ہاﺅس میں زیرعتاب آئے تو ان کے ساتھ وزیراعظم ہاﺅس میں بند ہونے والوں میں چند سرکاری افسران شامل تھے ، تاہم ان کی کابینہ کے دو وزرا چودھری نثار علی خان اور راجہ نادر پرویز اس دن خاموشی مگر تیزی سے وزیراعظم ہاﺅس سے نکل گئے اور یوں وہ پرویز مشرف کی انتقامی کارروائی سے بچ گئے اور گھر میں آرام سے رہے۔
رائے ریاض کے مطابق چودھری نثار کے تکبر اور غرور کا تماشا میں نے اس وقت دیکھا جب بھکر یا میانوالی سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی اے نے بڑے دردمندانہ انداز میں میاں نواز شریف سے شکایت کی کہ میں چودھری نثار سے اپائنمنٹ لے کر ان کے دفتر گیا، راستوں سے ناواقف ہونے کے باعث میں پندرہ منٹ دیر سے پہنچا تو انہوں نے مجھ سے ملنے سے انکار کر دیا۔ وہ دفتر میں موجود تھے، دروازہ کھلا تھا، وہ مجھے نظر آرہے تھے، دفتر میں تصویر لگوار ہے تھے، مگر مجھے دو منٹ ملنے سے انکار کر دیا۔ اس ایم پی اے نے کہا:” ہم پسماندہ علاقے کے لوگ ہیں، ہمارے ڈرائیور بھی یہاں کے راستوں سے ناواقف ہیں، ہمارے ساتھ اتنا ظلم نہ کریں کہ کل کو اللہ تعالیٰ کی گرفت آجائے ۔“

رائے ریاض کے مطابق ہم نے اللہ تعالیٰ کی گرفت کو دیکھا جب دو ہزاراٹھارہ کے الیکشن میںچودھری نثار اپنی دونوں قومی اسمبلی کی نشستوں سے ہار گئے اور بمشکل ایم پی اے بن پائے ، تین سال بعد حلف لینے کے لئے اسمبلی پہنچے، صوبائی اسمبلی میں سپیکر چیمبر میں دو گھنٹے انتظار کیا مگر سپیکر سے ملاقات نہیں ہوسکی ، پھر ڈپٹی سپیکر کا انتظار کیا تو ان سے بھی ملاقات نہ ہوئی۔ وہ چودھری نثار جو چند منٹ انتظار نہیں کر سکتا تھا، گھنٹوں انتظار کے بعد پنڈی واپس آگیا، حلف نہ ہوسکا۔ دو دن بعد حلف ہوا ، خطاب کی دعوت دی گئی، مگر خطاب نہ کر سکے اور ایم پی اے بن کر واپس آگئے، جو لوگ کسی بڑے دھماکے کا انتظار کر رہے تھے، وہ بھی مایوس ہوگئے۔

رائے ریاض کہتے ہیں، وزیراعظم ہاﺅس میں میرا قیام غالباً طویل ترین تھا، دو بار میاں نواز شریف کے ساتھ (پہلے دونوں ادوار میں)، پھر ایک دفعہ میرظفراللہ جمالی کے ساتھ اور درمیان میں دو نگران وزراعظم معین قریشی اور چودھری شجاعت کے ساتھ ۔ میاں صاحب کے پہلے دونوں ادوار میں ایک مشترک چیز دیکھی کہ وزیراعظم کے گرد شروع ہی سے کچھ وزرا، بیوروکریٹ ، ٹیکنوکریٹ اور دوست گھیرا ڈال لیتے ہیں۔ اس گھیرے میں شامل لوگ پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان میں کوئی شامل نہ ہو۔ اگر کوئی نظروں سے گر جائے ، فوت ہوجائے یا کسی اور وجہ سے آﺅٹ ہوجائے تو کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی اور اس کی جگہ نہ لے سکے۔ بدقسمتی سے گھیرا ڈالنے والوں کی تعداد یوں کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے، اسی طرح وزیراعظم کو مشورہ دینے والوں کا لیول بھی کم سے کم ہوتا جاتا ہے۔ میاں صاحب کے ساتھ میں نے دیکھا کہ شروع شروع میں اگر پچاس افراد تھے تو آخر میں صرف پانچ رہ گئے تھے۔

رائے ریاض میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت مین ان کے پی آراو مقرر ہوئے ، سید انور محمود تب پریس سیکرٹری بنے۔ پی آر او کا کام پریس سیکرٹری کی مدد کرنا اور دفتری امور نمٹانا ہے۔ انور محمود میں ایک اچھی بات تھی کہ جب رائے ریاض کوئی رپورٹ بناتے تو وہ کہتے کہ اپنے نام سے بناﺅ اور اپنے دستخط بھی کرو تاکہ وزیراعظم کو معلوم ہو کہ یہ پی آر او نے کیا ہے۔ یہ وسیع الظرفی نہ میں نے پہلے دیکھی تھی اور نہ بعد میں ۔

1992ءمیں وزیراعظم کے ساتھ ترکی جانے والے وفد میں رائے ریاض شامل ہوئے، واپسی پر انہیں معلوم ہوا کہ میاں نواز شریف کے کہنے پر فلائیٹ کا ٹیکنیکل سٹاپ اوور مدینہ شریف میں ہوگاکہ میاں صاحب کی خواہش ہے کہ مسجد نبوی میں نوافل ادا کئے گئے ۔ وہاں آدھی رات میں مسجد نبوی میں نوافل ادا کئے ، پتہ چلا کہ روضہ رسول ﷺ کا دروازہ کھلنے والا ہے، سب کی حالت غیر ہونے لگی۔ دروازہ کھلا تو نواز شریف جو سب سے آگے دروازے پر کھڑے تھے ، وہ ایک طرف ہٹ گئے اور سٹاف کو اشارہ کیا کہ وہ داخل ہوں۔ یوں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پانچ سات سٹاف ممبران کے بعد وزیراعظم اندر داخل ہوئے ۔ بعد میں واقفان کار نے بتایا کہ اگر میاں صاحب پہلے داخل ہوجاتے تو احتمال تھا کہ دروازہ بند کر دیا جاتا اور باقی لوگ اس سعادت سے محروم رہ جاتے۔ رائے ریاض زندگی بھر اس سعادت پر نواز شریف کے ممنون رہے ، انہیں میاں صاحب کے دوسرے دور حکومت میں بھی یہ مبارک موقعہ ملا۔
1993ءمیں جب صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان رسہ کشی جاری تھی، میاں صاحب ہر ویک اینڈ پر لاہور جاتے تھے ۔ آخری دنوں میں ایک عجیب کام ہوا کہ کابینہ کے وزرا نے ایک ایک کر کے استعفاد ینا شروع کر دیا ۔ ایک ویک اینڈ پر وزیراعظم اسلام آباد سے لاہور جانے لگے، سٹاف کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لئے جہاز میں پچھلی طرف آئے ، انہوں نے رائے ریاض سے ہاتھ ملایا تو انہوں نے آہستہ سے کہا، میاں صاحب حسین حقانی نے بھی کام دکھا دیا۔میاں نواز شریف جو مڑ رہے تھے، واپس ہوئے اور آہستہ سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ رائے ریاض نے بتایا کہ حسین حقانی نے بھی استعفا دے دیا ہے۔ میاں نواز شریف نے جب یہ سنا تو آہستہ سے رائے ریاض کے کان میں کہا، ”یہ…. امریکہ کا ایجنٹ ہے۔“رائے ریاض خاصی دیر تک سوچتے رہے کہ اگر امریکی ایجنٹ ہے تو اتنا عرصہ آپ کے ساتھ کیا کرتا رہا؟ نجانے کس مجبوری میں میاں نواز شریف نے اسے پریس اسسٹنٹ رکھا تھا۔

Related Posts