مینارِ پاکستان پر 400افراد کی ہراسگی کا شکار عائشہ اکرم کون ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

رواں برس یومِ آزادی کے موقعے پر مینارِ پاکستان پر 400 افراد نے عائشہ اکرم نامی خاتون ٹک ٹاکر پر حملہ کردیا، ہراسگی سے متعلق کیس نے ہر پاکستانی کو غمزدہ کردیا جبکہ 14 اگست وہ روز ہے جب پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

لاہور میں مینارِ پاکستان کے مقام پر عائشہ اکرم کو 400 افراد کے ہجوم نے گھیر لیا۔ دن کی روشنی میں ہجوم مسلسل خاتون ٹک ٹاکر پر حملہ کرتا رہا اور کوئی بھی شخص متاثرہ خاتون اور ساتھیوں کو بچانے کیلئے نہ آیا۔ 

سوشل میڈیا پر واقعے کی ویڈیو آج ہر خاص و عام دیکھ سکتا ہے۔ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے یومِ آزادی کے موقعے پر یو ٹیوب کیلئے ویڈیو بنانے کیلئے گریٹر اقبال پارک کے نزدیک خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔

عائشہ اکرم کون ہیں؟

داتا کی نگری لاہور کی رہائشی عائشہ اکرم ایک مشہورومعروف ٹک ٹاک اسٹار ہیں جو ٹک ٹاک پر مختصر فارمیٹ کی ویڈیوز بنا کر بے حد مشہور ہوئیں۔ اپنے 6 ساتھیوں کے ہمراہ عائشہ اکرم گریٹر اقبال پارک لاہور گئیں اور یومِ آزادی کیلئے ویڈیو شوٹ کرنے کی کوشش کی۔

اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ویڈیو شوٹنگ اور سیلفی فوٹو کھینچنے کے دوران یہ واقعہ پیش آگیا۔ سوشل میڈیا پر دیکھتے ہی دیکھتے ہجوم کے حملہ آور ہونے کی ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ہر شخص خواتین کے تحفظ سے متعلق پریشان نظر آنے لگا۔

ہراسگی کا واقعہ

لاری اڈہ تھانہ میں درج کرائی گئی ایف آئی آر کے متن کے مطابق عائشہ اکرم کا کہنا ہے کہ ہم مینارِ پاکستان کے قریب ویڈیو ریکارڈ کر رہے تھے کہ 3 سو سے 400 کے قریب لوگ ہم پر حملہ آور ہوئے اور میرے ساتھ دست درازی کی۔

کم و بیش 3 سے 400 کے قریب لوگوں نے عائشہ اکرم کے ساتھ دست درازی کے دوران ان کے کپڑے پھاڑ دئیے، زیور اور نقدی چھین لی اور دست درازی کی۔ متعدد لوگوں نے مدد کی کوشش بھی کی لیکن ہجوم اس قدر بڑا تھا کہ انہیں ہوا میں اچھالتا رہا۔

کیس کی قانونی تفصیل

مذکورہ ایف آئی آر 354 اے ، 382، 147 اور 149 کی دفعات کے تحت درج کی گئی ہے، مقدمے میں خاتون کے کپڑے پھاڑنا، چوری، اقدامِ قتل، زخمی کرنا، فساد اور غیر قانونی ہجوم سمیت دیگر دفعات شامل ہیں۔

ڈی آئی جی نے متعلقہ ایس پی کو حکم دے دیا ہے کہ واقعے میں شامل تمام مشکوک افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔ ترجمان پنجاب حکومت فیاض چوہان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے شرمناک قرار دیا۔ 

ذمہ دار کون ہے؟

اس خوفناک واقعے کے بع بہت سے لوگوں نے متاثرہ خاتون عائشہ اکرم کو ہی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا کہ وہ ٹک ٹاک کا زیادہ استعمال کیوں کرتی ہیں؟ جبکہ پاکستان کی عدالتیں بار بار ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردیتی ہیں اور پھر یہ پابندی ہٹا دی جاتی ہے۔

بہت سے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک پاکستان میں فحاشی پھیلا رہی ہے تاہم اس تمام تر تنقید کا عائشہ اکرم کے واقعے سے دور پرے کا بھی واسطہ نہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ لوگ جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، انہیں وہی ملتا ہے اور عائشہ اکرم کے ساتھ بھی وہی ہوا۔

تاہم بہت سے معقول سوچ رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ ایسے خوفناک جرائم سے خواتین کو بچانے کیلئے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا اور انہیں سخت سے سخت سزا دینا ضروری ہے۔ متاثرہ خواتین کو الزامات کا نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے۔ 

یہ بھی پڑھیں: کیا آپ ملک بھر کیلئے وزیراعظم کے یکساں نصاب تعلیم کے حامی ہیں؟

Related Posts