عمران خان کے وارنٹ گرفتاری:اصل معاملہ کیا تھا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عمران خان بلٹ پروف جیکٹ لازمی پہنیں، پارٹی اُن کی نقل و حرکت کو خفیہ رکھے، پولیس کا مراسلہ
عمران خان بلٹ پروف جیکٹ لازمی پہنیں، پارٹی اُن کی نقل و حرکت کو خفیہ رکھے، پولیس کا مراسلہ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف توہین عدالت کے ریمارکس پر سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔

وارنٹ گرفتاری مورخہ 30 ستمبر کو سینئر سول جج رانا مجاہد رحیم نے جاری کیے تھے۔

عمران خان کے وارنٹ گرفتاری تھانہ مارگلہ میں 20 اگست کو درج مقدمے میں جاری کیے گئے، مقدمے میں تحریک انصاف کے سربراہ کے خلاف دفعہ 504/506 اور 188/189 لگی ہوئی ہے،سابق وزیر اعظم کے خلاف تھانہ مارگلہ میں درج مقدمے کا نمبر 407 ہے۔

عمران خان نے کیا کہا تھا؟

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 20اگست کو اپنے خطاب کے دوران اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس کے خلاف مقدمات درج کرنے کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا: ”ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔“

سابق وزیر اعظم نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری کا بھی ذکر کیا تھا، جنہوں نے اسلام آباد پولیس کی درخواست پر شہباز گل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا، عمران خان نے کہا تھا کہ ”ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی”۔

رد عمل:

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف متنازع ریمارکس کے سلسلے میں گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کی خبر کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد میں بنی گالہ رہائش گاہ پر جمع ہونا شروع ہوگئے۔

اسلام آباد پولیس نے بعد ازاں ایک بیان جاری کیا، جس میں وارنٹ کی وجوہات کی وضاحت کی گئی جس میں کہا گیا کہ یہ ایک ”قانونی عمل” ہے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عمران خان کے خلاف ان کے ریمارکس پر درج مقدمے سے دہشت گردی کے الزامات کو ختم کرنے کے بعد کیس کو سیشن کورٹ میں منتقل کر دیا گیا تھا اور پی ٹی آئی کے سربراہ نے وہاں سے ضمانت حاصل نہیں کی تھی۔

پولیس نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے پر عدالت کی آخری سماعت میں بھی شرکت نہیں کی تھی اور اس طرح ان کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا۔

عمران خان معافی کے لیے جج زیبا چوہدری کی عدالت میں چلے گئے۔

آج حلف نامہ جمع کرانے سے پہلے، عمران جمعے (کل) اسلام آباد کی سیشن عدالت میں جج زبیا چوہدری سے ذاتی طور پر معافی مانگنے کے لیے پیش ہوئے، لیکن جج کے چھٹی پر ہونے کی وجہ سے ان کی معافی لٹک گئی۔

ان کی غیر موجودگی میں عمران خان نے عدالت کے ریڈر چوہدری یاسر ایاز کو ان کے لیے ایک پیغام دیا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کی گئی ویڈیو میں عدالت کے ریڈر سے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے۔”میں جوڈیشل مجسٹریٹ زیبا چوہدری سے معافی مانگنے آیا ہوں،”۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو میڈم زیبا چوہدری کو بتانا ہوگا کہ عمران خان تشریف لائے تھے اور اگر ان کے الفاظ سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو وہ معافی مانگنا چاہتے ہیں۔

توہین عدالت کیس میں عمران نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بیان حلفی جمع کرا دیا۔

آج عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے حلف نامے میں، عمران خان نے کہا کہ انہیں معزز عدالت کے سامنے احساس ہوگیا ہے کہ انہوں نے 20 اگست 2022 کو تقریر کرتے ہوئے سرخ لکیر عبور کر لی ہے”۔ تاہم، انہوں نے مزید کہا، ان کا کبھی بھی جج زبیا چوہدری کو دھمکی دینے کا ارادہ نہیں تھا اور ”بیان کے پیچھے قانونی کارروائی کے علاوہ کوئی اقدام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا”۔

انہوں نے کہا کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ جج زبیا چوہدری کے سامنے وضاحت پیش کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ”نہ تو وہ اور نہ ہی ان کی پارٹی نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ آئندہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے کسی بھی عدالت کے وقار کو ٹھیس پہنچے۔

Related Posts