عمران خان فیکٹر نے سب کچھ الٹ دیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عمران خان فیکٹر نے سب کچھ الٹ دیا
عمران خان فیکٹر نے سب کچھ الٹ دیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے کمال کر دکھایا۔ ایک غیر معمولی کامیابی حاصل کر کے اپنے مخالفوں کے ساتھ حامیوں کو بھی ہکابکا کر دیا ہے۔ آج صبح بھی اگر کوئی غیر جانبدار سیاسی کارکن یا صحافی یہ کہتا کہ شام کو تحریک انصاف بیس میں سے سترہ نشستیں جیت لے گی اور بھکر ، ڈی جی خان، پنڈی، خوشاب اور ساہی وال جیسے حلقوں میں بھی جیت جائے گی تو شائد ایسا کہنے والے کی عقل پر شک کیا جاتا۔ یہ سب مگر ہو چکا ہے۔

اس ضمنی الیکشن کی کامیابی کی مختلف وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں، تفصیلی تجزیہ کیا جائے تو تحریک انصاف کی کئی کامیابیاں، ن لیگ کی کئی ناکامیاں نظر آئیں گی۔ ہمارے نزدیک تین بڑی وجوہات ہیں، عمران خان، عمران خان ، عمران خان۔

یہ الیکشن دراصل عمران خان بمقابلہ آل تھے، پنجاب بلکہ ملک بھر کی تمام سیاسی قوتیں عمران خان کے مخالف کھڑی تھیں۔ پیپلزپارٹی ، ن لیگ، جے یوآئی اور دیگر تمام چھوٹے دھڑوں کے ووٹ پی ٹی آئی کے خلاف پڑے ۔ مقامی گروپنگ کے تحت کہیں پیپلزپارٹی نے ن لیگ کی مقامی سطح پر مخالفت بھی کی، مگر زیادہ تر جگہوں پر یہ سب عمران خان کے مخالف تھے۔

انتظامیہ نے مکمل طور پر تحریک انصاف کی مخالفت کی ،ن لیگ کے امیدواروں کو ہر ممکن سہولت بہم پہنچائی گئی، ان کے کام ہوئے، ترقیاتی کام بھی آخر تک ہوتے رہے، حالانکہ قانون کی رو سے روک دینے چاہیے تھے۔الیکشن کمیشن بھی ن لیگ کے حوالے سے کئی چیزیں نظرانداز کرتا رہا۔ لاہور میں کئی مڈل کلاس سوسائٹیوں کے سینکڑوں ووٹ ڈسٹرب ہوئے، میلوں دور پولنگ سٹیشنوں میںڈال دئیے گئے، شائد یہ سوچ کر کہ پڑھے لکھے علاقے ہیں، یہ پی ٹی آئی کے ووٹر ہی ہوں گے۔

یہ سب مگر ناکام رہے،آخری تجزیے میں بری طرح ناکام ۔

عمران خان فیکٹر جیت گیا۔

یہ جیت صرف اور صرف عمران خان کی ہے، امیدواروں نے محنت تو ظاہر ہے کی ہوگی، مگر عمران خان کی وجہ سے اچانک جو انہیں بڑا ووٹ بینک ملا، اس نے ان کی جیت یقینی بنائی ، ورنہ کئی نشستوں پر بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔

عمران خان کی جارحانہ اور بھرپور انتخابی مہم اور ان کا بیانیہ کامیاب ہوا۔ عمران خان نے جب علی پور، جتوئی میں غیرمعمولی جلسہ ہوا تو ہم سب حیران رہ گئے، تب اندازہ ہوا کہ اس اعتبار سے تو عمران خان مظفر گڑھ کی دونوں نشستیں جیت سکتا ہے، ایسا ہی بھکر میںہوا، اٹھارہ ہزاری جھنگ میں ہوا۔ ملتان اور لاہور میں ہوا ۔ بعد میں اگرچہ مقامی برادریوں، گروپنگ کو دیکھ کر لگتا تھا کہ مقابلہ سخت ہوگا، مگر عمران خان کا عنصر آخر میں فیصلہ کن ثابت ہوا۔

بھکر میں سعید نوانی جیسے الیکٹ ایبل کا ہارنا حقیقی تبدیلی کا آغاز ہے۔ سات بار یہ مسلسل جیتے ہوئے تھے۔ اسی طرح ساہی وال میں نعمان لنگڑیال کا ہارنا بھی غیر متوقع تھا، پی ٹی آئی کا امیدوار شریف اور بزرگ تھا، مگر ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ریس میں اکیلے بھی دوڑیں تو آخری نمبر پر رہیں گے، آج انہوں نے بھی میدان مار لیا۔

لیہ میں بھی تحریک انصاف کا جادو کارگر رہا، حالانکہ وہاں ن لیگی امیدوار کو آبادکاروں کی حمایت حاصل تھی ۔ جھنگ میں ن لیگ نے تمام تر گروپنگ کر کے ایسا تاثر دیا جیسے وہ دونوں سیٹیں جیت جائیں گے، نتیجہ الٹ نکلا۔
ڈی جی خان میں کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا تھا کہ سیف کھوسہ ن لیگی امیدوار عبدالقادر کھوسہ سے ڈبل ووٹ لے جائے گا۔

ایسا مگر ہوا ہے، ایک حیران کن فتح ملی ہے سیف الدین کھوسہ کو۔ مقامی لوگ بتا رہے ہیں کہ اس کی واحد وجہ عمران خان کا ڈی جی خان میں جلسہ ہے، جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اس خالص قبائلی علاقہ میں بھی نوجوان دیوانہ وار عمران کے نام پر باہر نکلے اور لغاری، کھوسہ اور دیگر سرداروں کے حمایت یافتہ عبدالقادر کھوسہ کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔

ملتان میں شاہ محمود قریشی نے بھی بہت محنت کی، مگر مقامی اخبارنویس اس فتح کو بھی عمران فیکٹر کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ وہاں پر پیپلزپارٹی اور خاص کر یوسف رضاگیلانی نے زین قریشی کو ہرانے کے لئے دن رات ایک کیا، مگر عمران خان فیکٹر سب کو بہا کر لے گیا۔

لاہور میں تین نشستیں تحریک انصاف نے جیت لیں، ایک نشست علیم خان نے چھوڑی تھی، یہ جیتنا بڑا کارنامہ ہے ۔ن لیگ نے لاہور کے لئے د و وزرا ایاز صادق اور صوبائی وزیر سلمان رفیق کو مستعفی کرائے، یہ سب محنت ضائع گئی۔

عمران خان کا ووٹ بینک لاہور سمیت پنجاب بھر میں بہت بڑھا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ لاہور کی چوتھی نشست بھی جیتی جا سکتی تھی، اگر تحریک انصاف وہاں کچھ بہتر امیدوار دیتی ۔ اسی طرح اگر بہاولنگر میں عمران خان جلسہ کر لیتے تو شائد وہاں سیٹ بھی نکل آتی۔ یہ واحد حلقہ ہے جہاں عمران خان نے جلسہ نہیں کیاتھا۔

اس الیکشن میں امیدوار اور زمینی حقائق بڑی حد تک غیر متعلق ہوگئے، عمران خان فیکٹر سب سے اہم رہا۔

عمران خان کا بیانیہ جیت گیا جبکہ سترہ لوٹوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ن لیگ، شہباز شریف، حمزہ شریف کو شکست ہوئی۔

سب سے بڑھ کر مریم نواز شریف اور ان کے بیانیہ کو شکست ہوئی کہ ہر جگہ ن لیگ کے جلسوں میں مریم نواز ہی شریک ہوئیں۔ نتائج سے اندازہ ہوا کہ عمران خان کا مقابلہ کرنا مریم نواز شریف کے بس کی بات نہیں۔ ن لیگ کو عام انتخابات کے لئے کچھ اور سوچنا ہوگا۔

ویسے تو اب عام انتخابات میں زیادہ دیر نہیں رہی۔ اس مینڈیٹ کے بعد پنجاب حکومت تو خیر تحریک انصاف کو یقینی طور پر مل جائے گی، لیکن اب وفاقی حکومت رہنے کا بھی جواز نہیں رہا۔ اب اگلے تین چار ماہ میں نئی حکومت آنی چاہیے ۔ عوام اور ملک کو نیا، فریش مینڈیٹ چاہیے۔ کسی مداخلت اور انجینئرنگ کے بغیر۔ جسے عوام جتوائیں، اسے ہی حکومت اور بااختیار حکومت ملے۔

Related Posts