شبِ معراج اور بیت المقدس کی اہمیت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا بھر کے مسلمان ہر سال 27 رجب المرجب کو شبِ معراج کے طور پر مناتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ سے بیت المقدس میں واقع مسجدِ اقصیٰ اور وہاں سے منزلِ معراج تک کا سفر مقبوضہ بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ کی اہمیت واضح کرنے کیلئے کافی ہے۔

ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ عنقریب ایک ایسا وقت آئے گا جب (بیت المقدس کی اہمیت اتنی بڑھ جائے گی کہ) اگر کسی کے پاس زمین کا ایک ٹکرا گھوڑے کی رسی کے برابر (بھی) ہو جس سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکے، یہ اس کیلئے پوری دنیا سے بہتر ہوگا۔ (الحاکم 509/4) اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر مسلمان کو بیت المقدس سے محبت ہونی چاہئے۔ اس طرح یہ ایک مسلم معاملہ ثابت ہوتا ہے کہ بیت المقدس عربوں کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان قوم کیلئے یکساں طور پر اہم ہے کیونکہ یہاں اللہ کے نبی ﷺ تشریف لائے اور اسلام کا قبلۂ اول موجود ہے۔

اسلامی تاریخ کے مطابق بیت المقدس کو روئے زمین پر تعمیر کی گئی دوسری مسجد سمجھا جاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانۂ کعبہ)،  پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کون سی؟ فرمایا کہ مسجدِ اقصیٰ (جو یروشلم میں ہے)۔  (بحوالہ صحیح بخاری، حدیث نمبر 3366)

تمام مسلمانوں کیلئے مسجدِ اقصیٰ کی زیارت اور نماز ادا کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ کسی مخصوص مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے صرف تین جگہوں کا سفر کیاجاسکتا ہے جن میں سے ایک مسجدِ حرام، دوسری مسجدِ نبوی ﷺ اور تیسری بیت المقدس ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1397) ۔  انسان کی ایک نماز اپنے گھر میں، (ثواب میں) ایک نماز کے برابر ہے، اس کی نمازمحلے کی مسجد میں، پچیس نمازوں کے برابر ہے، اس کی نماز جامع مسجد میں، پانچ سو نمازوں کے برابر ہے،اس کی نماز مسجد اقصی میں، پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، (اسی طرح) اس کی نماز میری مسجد (مسجد نبوی) میں، پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور اسی شخص کی ایک نماز مسجد حرام میں، ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ (سنن ابن ماجہ: 1413))

بلاشبہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہمارے لیے مقدس ترین مقامات ہیں جبکہ بیت المقدس کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کے لیے منزلِ معراج کی طرف سفر کا مقامِ آغاز ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مقام پر اور اردگرد رحمتوں کی بارش فرماتا ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ پاک وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گردو نواح میں ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہی سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ (سورۂ اسراء، آیت 1)۔

یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آج بیت المقدس میں برکت کہاں ہے؟  جبکہ برکت کا مطلب صرف نعمت ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب سختی بھی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی زندگی برکتوں سے بھرپور تھی تو اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی زندگی سختیوں سے بھی بھرپور تھی۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ قرآن میں ہر وہ مقام جس کے ساتھ لفظ برکت آیا ہے، وہاں تنہائی، ویرانی اور مشکلات کی جگہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ کی زمین کو بنجر قرار دیتے ہیں کیونکہ یہاں کوئی چیز نہیں اگتی، نہ ہی پانی اور زندگی ہے لیکن مکہ سب سے بابرکت سرزمین ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی محبوب ترین جگہ ہے۔ آج بھی مکہ کے شہر اور لوگ سخت ہیں۔ مکہ کو پانی فراہم کرنے کیلئے ٹرکس استعمال ہوتے ہیں، پائپ لائنز نہیں۔

اسی طرح بیت المقدس کو مسلسل تباہی اور تعمیرِ نو کا سامنا رہا ہے اور اس پر لڑی جانے والی جنگوں کی وجہ سے کئی بار تعمیرِ نو ہوئی اور حکمران بدل گئے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بیت المقدس ہمارے لیے اور ہمارے نبی ﷺ کیلئے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ بیت المقدس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیت المقدس کے محاصرے کے دوران شکست خوردہ جماعت نے اس وقت تک چابیاں نئے حکمران کے حوالے نہ کیں جن تک کہ اس نے اپنی آنکھوں سے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ نہ لیا تاکہ یہ یقین ہوسکے کہ آپ اس کے لائق تھے۔ خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے خادم کے ہمراہ اونٹ پر مدینہ سے یروشلم جانا پڑا اور دونوں باری باری اونٹ پر سوار ہوتے رہے۔ بیت المقدس پہنچنے پرحضرت عمر پیدل چل رہے تھے، خادم اونٹ پر سوار تھا جبکہ خلیفہ کی چادر میں 17 پیوند لگے تھے۔ آپ کو طرح طرح کے پکوان پیش کیے گئے مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صرف روٹی اور تیل طلب فرمایا۔ شکست خوردہ جماعت نے یہ سب حالات دیکھنے کے بعد ہی بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کیں۔

مندرجہ بالا روایت سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ امت اپنے مذہب اور روایات کو بھلا چکی ہے۔ مسلمان کبھی ضروریات پوری کرنے سے بڑھ کر عیش و عشرت کے آسان ترین راستے تلاش کرنے میں مصروف نہیں رہے۔ نبئ اکرم ﷺ کو خدشہ تھا کہ امت دنیا کے خزانوں کی تلاش میں لگ جائے گی اور اس پر آپس میں جھگڑا کرے گی۔ فرمایا کہ خدا کی قسم! میں ابھی اپنا حوض (کوثر) دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ میری موت کے بعد تم غیر اللہ کی عبادت کرو گے لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم دنیاوی چیزوں کیلئے ایک دوسرے سے لڑو گے۔ (صحیح بخاری، 1344)۔ یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ فضول مقابلے ہماری تباہی کا باعث بنیں گے، جیسا کہ گزشتہ قوموں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔