انسان کیسے وجود میں آیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سورہ 2، آیت نمبر 31 کی روشنی میں:

یہ اس وقت کی بات ہے جب روئے زمین پر آدم کا وجود تھا اور نہ ہی کسی آدم زاد کا نام و نشان تھا۔ انسان کی تخلیق عمل میں نہیں آئی تھی اور انسان نامی خدا کی اس مخلوق کا وجود خالق ارض و سما کے ارادے اور مشیت میں ہی پنپ رہا تھا۔

اللہ تعالیٰ کے علمِ ازَلی (وہ علم جس کی کوئی انتہا نہیں) اور اس کے ہمیشہ اور ہر وقت قائم ارادہ اور مشیت میں تو انسان کی تخلیق کا منصوبہ ہمیشہ سے ہی موجود تھا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی اس کا علم نہیں تھا، یہاں تک کہ فرشتے بھی انسانیت کی تخلیق کے منصوبہ خداوندی سے بالکل لا علم تھے۔

اللہ تعالیٰ علیم، حکیم اور خبیر ذات ہے۔ وہی اس امر کو بہتر جانتا ہے کہ کوئی منصوبہ کب شروع کرنا ہے اور کب کس مخلوق کو وجود بخشنا ہے؟ جب اس کا مناسب وقت آتا ہے تو وہ چاہے تو فرشتوں کو اپنے منصوبے اور ارادے کی جزئیات سے آگاہ کر دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں انسان کو وجود میں لانے کا جو منصوبہ موجود تھا، اب اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آگیا تھا، چنانچہ رب تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے اپنے اس ارادے کو فرشتوں پر ظاہر کرنا چاہا۔

یہ فرشتوں کیلئے بڑا سرپرائز تھا جب خالق و مالک نے انہیں بتایا کہ میں اب انسان نامی ایک نئی مخلوق کو وجود بخشنا چاہتا ہوں۔ اس آیت کریمہ میں کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے اسی واقعے اور اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے مکالمے کا ذکر ہے۔

خالق و مالک نے فرشتوں کو جمع فرما کر اپنے منصوبے سے آگاہ کیا اور اعلان فرمایا کہ میں زمین پر اپنا نائب پیدا کرنے والا ہوں۔ فرشتوں نے یہ سنا تو حیرت میں ڈوب گئے اور انہوں نے بہ یک زبان یہ سوال اٹھایا کہ یا اللہ کیا آپ زمین پر ایسی مخلوق پیدا کرنے والے ہیں جو فساد پھیلائے، خون خرابہ کرے، کیا آپ کی عبادت کیلئے ہم کافی نہیں ہیں؟

فرشتوں نے خالق و مالک کی بارگاہ میں یہ تحیر آمیز سوال اس لیے اٹھایا کہ ان کے سامنے جنات کا تلخ تجربہ تھا۔ انسان سے پہلے زمین پر جنات رہتے تھے۔

وہ چونکہ ناری یعنی آگ سے پیدا ہونے والی مخلوق ہے، اس لیے ان کے مزاج اور طبعیت میں تیزی ہے۔ وہ جلد بھڑک اٹھتے ہیں اور اسی سبب انہوں نے طویل زمانے تک زمین پر فساد برپا کیے رکھا اور بے تحاشا ایک دوسرے کا خون بہایا۔

اب جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے یہ کہا کہ وہ ایک اور مخلوق پیدا کرنے والے ہیں تو وہ چونک اٹھے اور انہوںنے جنات کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ نئی مخلوق بھی فساد پھیلائے گی، اس کی کیا ضرورت ہے؟

اس پر اللہ تعالیٰ نے اولاً فرشتوں کو جواب دیا کہ دیکھو میں جو جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔ دوسرے نمبر پر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کو بروئے کار لاکر عملی جواب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چند ایسی چیزوں کے بارے میں آگاہ کیا جو فرشتوں کے علم میں نہیں تھیں۔ اللہ نے پہلے فرشتوں سے پوچھا بتاو ان چیزوں کے بارے میں؟

فرشتوں نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا تو اللہ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ اب تم بتاو۔ آدم علیہ السلام نے وہ ساری چیزیں بتا دیں جو اللہ نے انہیں سکھا دی تھیں۔

فرشتوں نے یہ سنا تو یہ دیکھ کر اچھی طرح مطمئن ہوگئے کہ یہ مخلوق کار آمد بھی ہے۔ یوں آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قافلہ آدمیت کا آغاز ہوگیا۔

Related Posts