سی این جی سیکٹر مشکلات سے دوچار،گیس بحران حکومت کی نااہلی ہے، شبیر سلیمان کی ایم ایم نیوز سے خصوصی گفتگو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Gas crisis is incompetence of government: Shabbir Suleman

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں کبھی سی این جی کو چھوٹی گاڑیاں یا مہنگا ایندھن استعمال کرنے کی سکت نہ رکھنے والوں کیلئے موزوں سمجھا جاتا تھا تاہم سی این جی گاڑیوں کی زندگی کم ہونے کے حوالے سے بھی مسائل کی وجہ سے لوگ سی این جی کا استعمال کرنے میں ہچکچاتے تھے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ ملک میں ایندھن کی قیمت میں خاطر خواہ اضافے کی وجہ سے ہر شہری سی این جی کی طرف دوڑتا نظر آتا تھا لیکن آج پاکستان میں سی این جی پیٹرول سے بھی مہنگی ہوچکی ہے اور شہریوں کیلئے گاڑیاں چلانا دشوار ہوچکا ہے اور ملک کا پوش طبقہ بھی اپنی گاڑیوں میں سی این جی ڈلواتا دکھائی دیتا ہے ۔

ایم ایم نیوز نے ملک میں سی این جی کے استعمال اوربڑھتی قیمتوں  کے حوالے سے جاننے کیلئے چیئرمین آل پاکستان سی این جی فورم وسابق چیئرمین ایف پی سی سی آئی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے سی این جی شبیر سلیمان کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال نذر قارئین ہے۔

ایم ایم نیوز:پاکستان میں پیٹرول کی موجودگی میں سی این جی کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟

شبیر سلیمان: حکومت کی جانب سے 1992ء میں سی این جی کے فروغ کی 3 وجوہات تھیں، پہلی تجارتی خسارہ کم کرنا، مالیاتی آلودگی سے بچاؤ اور نچلے طبقے کو سستا ایندھن فراہم کرنا، ان 3 اہم چیزوں کو مدنظر رکھ کر پاکستان میں سی این جی کو فروغ دیا گیا۔

ایم ایم نیوز:ملک میں سی این جی مہنگی ہونے کی وجوہات کیا ہے ؟

شبیر سلیمان: پاکستان میں اس وقت سی این جی کی قلت کی وجہ سے حکومت آر ایل این جی امپورٹ  کررہی ہے اور سی این جی اسٹیشن مالکان کو پہلے آر ایل این جی پر منتقل ہونے کیلئے مختلف ترغیبات دی گئیں اور ایک مہینے بعد حکومت نے آر ایل این جی کی بندش بھی شروع کردی اور استثنیٰ ختم کرکے ٹیکسز بھی عائد کردیئے جس کی وجہ سے سی این جی کی قیمت 75 روپے سے 165 سے 180 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔

ایم ایم نیوز:ملک میں سی این جی کا کتنا استعمال ہوتا ہے؟

شبیر سلیمان: ملک میں پیٹرول کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے شہریوں نے جہاں اپنی نجی گاڑیاں سی این جی پر منتقل کیں وہیں ٹرانسپورٹرز نے بسیں اور دیگر گاڑیاں بھی سی این جی پر کروالیں اور آج ملک کا بیشتر طبقہ سی این جی گاڑیوں پر سفر کرتا ہے اور خاص طور پر مزدور پیشہ شہری سی این جی گاڑیوں کے ذریعے ہی آمد ورفت کرتے ہیں۔

ایم ایم نیوز:حکومت نرخ کم کرے تو سی این جی فروخت کنندگان اعتراض کیوں کرتے ہیں ؟

شبیر سلیمان: سی این جی سیکٹر پر مختلف الزامات عائد کئے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کبھی قیمتیں کم کرنے پر اعتراض نہیں کیا بلکہ کئی بار ہم نے اپنا نفع کم کرکے لوگوں کو ریلیف فراہم کیا ہے اور جہاں تک قیمتیں کم نہ کرنے کی بات ہے تو کبھی بھی سی این جی کی قیمت اوپر جانے کے بعد واپس نیچے نہیں آئی اور فروخت کنندگان جنہوں نے کروڑوں روپے لگاکر اسٹیشن بنائے وہ اپنی فروخت کم ہونے کی وجہ سے نقصان پورا کرنے کیلئے قیمتوں کئی بار الگ قیمت وصول کرتے ہیں۔

ایم ایم نیوز:موجودہ حکومت میں سی این جی سیکٹرکو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

شبیر سلیمان: پاکستان میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سی این جی پیٹرول سے بھی مہنگی ہوچکی ہے اور لوگ اپنی گاڑیاں واپس پیٹرول پر منتقل کررہے جبکہ گزشتہ دو سال میں تو یوں کہنا چاہیے کہ سی این جی سیکٹر وینٹی لیٹر پر چل رہا ہے اور گزشتہ ایک سال میں نفع کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہم لوگ صرف اپنا کاروبار بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایم ایم نیوز:سی این جی سیکٹر پر بہت زیادہ گیس استعمال کرنے کے الزامات میں کتنی صداقت ہے ؟

شبیر سلیمان: سندھ پاکستان میں گیس پیدا کرنے والا بڑا صوبہ ہے لیکن گیس کی قیمتیں اور فراہمی اس لحاظ سے نہیں ہے ، اداروں کی طرف سے سی این جی سیکٹر پر گیس کے زیادہ استعمال کے الزامات تو لیکن حقائق سامنے نہیں لائے جاتے۔پاکستان میں ماضی میں سی این جی کی کھپت 90ایم ایم سی ایف ڈی تھی جو آج 20 ایم ایم سی ایف ڈی سے کم ہے۔

یہ ملکی پیداوار کی تقریباً ایک فیصد بنتی ہے جبکہ پیشگی ادائیگی اور ٹیکس دینے کے باوجود سی این جی سیکٹر کو گیس فراہم نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے ملک میں ہزاروں سی این جی اسٹیشن بند ہوچکے ہیں۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ سی این جی سیکٹر کو بچانے کیلئے گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ یہ شعبہ مزیدمشکلات سے بچ سکے۔

ایم ایم نیور: کیا سی این جی کے استعمال سے واقعی گاڑی کا انجن خراب ہوجاتا ہے ؟

شبیر سلیمان: سی این جی کے استعمال سے گاڑی کا انجن خراب ہونے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ لوگ آدھی بات سن کر اس کا نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سی این جی پیٹرول سے زیادہ بہتر اور فائدہ مند ایندھن ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ناقص کٹ کی وجہ سے گاڑی کو نقصان پہنچتا ہے جس کو سی این جی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ نقصان سی این جی کی وجہ سے نہیں بلکہ غیر معیاری کٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر آپ معیاری کٹ استعمال کرینگے تو کبھی انجن خراب نہیں ہوگا۔

ایم ایم نیوز:سی این جی دیگر ایندھن کے مقابلے ماحول کیلئے کتنا سود مند ہے؟

شبیر سلیمان: سی این جی کو ماحولیاتی ایندھن کہا جاتا ہے، سی این جی کے استعمال کے بعد ملک میں سانس کی بیماریوں میں کئی گنا کمی ہوئی ہے اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کیلئے سی این جی ایک بہترین ایندھن ہے۔ پاکستان میں اس وقت ماحولیاتی آلودگی میں کمی کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تو پاکستان کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے میں سی این جی سیکٹر کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔

ایم ایم نیوز:سی این جی گاڑیوں کے سلنڈر پھٹنے کا ذمہ دار کس کوسمجھتے ہیں ؟

شبیر سلیمان: پوری دنیا میں سی این جی پر گاڑیاں چلتی ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں جب کوئی چیز زیادہ عام ہوجائے تو اس پر چیک اینڈ بیلنس ختم ہوجاتا ہے، پاکستان میں سی این جی سلنڈر کبھی نہیں پھٹا، ہاں لوگ غیر معیاری سلنڈرز اور ایل پی جی سلنڈر استعمال کریں تو حادثات پیش آتے ہیں ۔ آج ملک بھر میں گلی گلی سلنڈر بنانے والے بیٹھے ہیں جو آپ کو سستا سلنڈر بنادیں گے لیکن اس کی کوالٹی ناقص ہوگی ۔ اگر آپ کو حادثات سے بچاؤ اور گاڑی کی زندگی بڑھانی ہے تو آپ کو معیاری سلنڈر کا استعمال کرنا چاہیے۔

ایم ایم نیوز:سی این جی سیکٹر کے مسائل کیلئے اوگرا ودیگر ادارے کتنے ذمہ دار ہیں؟

شبیر سلیمان: گیس بحران حکومت کی نااہلی ہے، اداروں کے درمیان رابطوں کے فقدان کی وجہ سے مسائل حل ہونے میں رکاوٹیں درپیش ہیں، تمام مسائل کا حل ون ونڈو آپریشن ہے۔ جب تک قیمتوں میں فرق نہیں ہوگا تو ملک میں پیٹرول اور سی این جی میں انتخاب ممکن نہیں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت متعلقہ ایسوسی ایشنز کو ساتھ لیکر مسائل کے حل کیلئے پالیسیاں بنائے اور ملک میں کاروباری برادری کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔

Related Posts