Friday, March 29, 2024

یورپ کے مذہبی پیادے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کم و بیش 178 سال قبل ایک جرمن فلسفی اور ماہرِ معاشیات کارل مارکس نے کہا کہ مذہب لوگوں کیلئے افیون کا کام کرتا ہے۔ بعد ازاں شہرت حاصل کرنے والا یہ مقولہ بیان کرتا ہے کہ مذہب کو ہم ایک ایسا ادارہ سمجھ سکتے ہیں جو معاشرے کے معاشی وسائل پر انحصار کرتا ہے۔

گویا جرمن فلسفی کارل مارکس کیلئے مذہب ظالموں کی جانب سے استعمال کیا جانے والا وہ آلہ تھا جس کے ذریعے مظلوموں کو ان کی خراب معاشی حالت پر مطمئن رہنے کیلئے جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ امیروں کی طرف سے مذہبی جوش و خروش غریبوں کو آج کی بجائے آخرت میں انعامات کی نوازشات کے وعدۂ فردا کی امیدیں دلائی جاتی ہیں۔ مارکس کے استدلال کے مطابق ترکِ مذہب لوگوں کی خواہشاتِ نفسانی کیلئے دائمی مسرت کا نام اور ان کی حقیقی خوشی کا دوسرا روپ ہے۔

اسلام پر پختہ یقین رکھنے کے باعث میں مارکس جیسے شخص سے اختلاف پر مجبور ہوں جو مذہب کو محض ایک فریب سمجھتا ہے لیکن یہاں خدا کے وجود پر بحث کرنا ایک اہم مشاہدے سے ہٹنے کا باعث ہوگا جو کارل مارکس کا ایک ایسا نظریہ ہے جو آج بھی بہت معتبر مانا جاتا ہے کہ مذہب کو معاشی مقاصد حاصل کرنے کا ایک آلہ بنا لیا گیا ہے۔

معاشی طور پر زیادہ ترقی یافتہ مغربی ممالک اب بھی مذہب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے نظر آتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ترقی پذیر ممالک مذہبی مسائل اور مسلکی تنازعات کا شکار رہیں، اپنے آپ کو نقصان پہنچائیں اور اس طرح ترقی یافتہ ممالک کو مشرق پر برتری حاصل کرنے کا موقع بار بار میسر آتا رہے۔ اس کی سب سے واضح مثال فرانس کی طرف سے پاکستان کو مذہبی انتشار میں مبتلا کرنے کیلئے گستاخانہ مواد کے حالیہ استعمال سے دی جاسکتی ہے۔

یورپی پارلیمان نے بھی توہین آمیز فرانسیسی مواد کے خلاف ٹی ایل پی کے ذریعے حالیہ پر تشدد مظاہروں کی روشنی میں یورپی یونین میں پاکستان کی جی ایس پی پلس حیثیت پر سوالات اٹھانے کیلئے قرارداد منظور کی جس میں پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے والے قوانین کی مذمت کی گئی اور پارلیمان نے پی ٹی آئی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے قوانین میں ترمیم کرے۔ قرارداد میں پاکستان میں فرانس کے خلاف بھڑکے ہوئے عوامی جذبات پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اگرچہ ٹی ایل پی کے احتجاج کی سمت غلط رہی، تاہم ملک گیر مظاہروں کا ایک معقول مقصد اپنی جگہ موجود تھا۔ جب پیرس میں اسکول کے استاد سیموئل پیٹی کو اپنے طلباء کو رسول اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکے دکھانے پر قتل کردیا گیا تو جوابی کارروائی کرتے ہوئے فرانسیسی حکومت نے خاکوں کو عوام سے تعریف و تحسین حاصل کرنے کیلئے ایک عمارت پر پیش کردیا۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے گستاخانہ خاکوں کو آزادئ اظہارِ رائے کا نام دے کر جائز قرار دے دیا۔

فرانسیسی حکام اکثر فاشسٹ ہندو وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانتے بوجھتے حمایت اور چاپلوسی کرتے نظر آتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ گستاخانہ خاکوں سے مسلمانوں میں انتشار اور اشتعال پھیلا دیں۔ اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب فرانس نے اس قسم کا تنازعہ کھڑا کیا ہو۔ حضور اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکے فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو میں 2012 میں بھی شائع ہوئے تھے جن پر دنیا بھرکی مسلم اقوام نے کھل کر تنقید اور مذمت کی۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ کے گستاخوں کے خلاف پاکستانی مسلم ہمیشہ بہادری پر مبنی اور حق بجانب مؤقف اپناتے ہیں۔ آزادئ اظہارِ رائے سے مراد کسی مذہب کی توہین یا بے عزتی کرنا نہیں ہے اور یورپی ممالک خود اس نظرئیے سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں جب وہ آزادانہ تقریروں کے دوران یہودی قوم کا ذکر کرتے ہیں۔ مختلف یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ سے انکار کے قوانین انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم یعنی یہودی قتلِ عام پر سوال اٹھانے کو غیر قانونی بنا دیتے ہیں۔ 29 نومبر 2017ء کے روز ایک 89 سالہ خاتون عرسلا کو ہولاکاسٹ سے انکار کرنے پر جرمن قوانین کے تحت 14 ماہ قید کی سزا سنائی گئی جسے نازی دادی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح 15 اپریل 2019ء کے روز دائیں بازو کے فرانسیسی ایلن سورل کو بھی ہولوکاسٹ سے انکار پر ایک سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

دراصل ہولوکاسٹ سے متعلق قوانین کے حمایتی افراد کی دلیل یہ ہے کہ یہودی قتل عام کو تسلیم کرنے سے انکار سچائی پر حملہ ہے اور یہود دشمنی کو فروغ دینے کی وجہ سے جمہوریت کیلئے خطرہ بھی ہے۔ اگر یہی دلیل مان لی جائے تو پھر یہ بھی قبول کرنا ہوگا کہ کوئی بھی گستاخانہ مواد شائع کرنا یا اس کی تشہیرکرکے حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی اسلاموفوبیا کا اظہار ہے تاہم کوئی بھی یورپی قانون دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی توہین کرنے پر کسی کو سزا نہیں دیتا۔

لہٰذا مسلم معاشرے کو مغرب کی منافقت کے خلاف نہ تو چپ رہنا چاہئے اور نہ وہ چپ رہ سکتا ہے لیکن نہ ہمیں مغربی ممالک کے بڑے منصوبوں میں ان کا پیادہ بھی نہیں بننا چاہئے جو وہ مشرق پر برتری پانے کیلئے بناتے ہیں۔ ٹی ایل پی نے 40 کاریں نذرِ آتش کیں، 4 پولیس افسران کو شہید کردیا اور 800 دیگرافراد کو زخمی کیا جس سے سوائے پاکستان کے نقصان کے اور کچھ نہیں ہوا۔یوں ہم نے تھالی میں رکھ کر یورپی یونین کو اپنا سر پیش کردیا جس پر وہ دیر تک ہنستے رہے۔ جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے پاکستان کو ملکی معیشت کیلئے فائدہ مند اضافی تجارتی فوائد حاصل تھے جس کے بغیر پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔

ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مجموعی 12 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں سے یورپی یونین کو کی جانے والی برآمدات 6 ارب بنتی ہیں۔ اگر جی ایس پی پلس کی سہولت ختم کردی گئی تو برآمدات کو دھچکا پہنچے گا اور ملک بھر میں بے روزگاری اور معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا۔ پھر بھی رسول اللہ ﷺ کی عزت و ناموس کیلئے کوئی بھی قربانی بڑی نہیں ہے۔ معیشت کو اسلام قربان کرکے بچانے کو دانشمندی قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم پاکستان کو نقصان پہنچانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ فرانسیسی قوم گستاخانہ خاکے شائع کرتی رہے گی تاکہ ملک گیر اشتعال پھیلا کر مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر بار بار پیش کیا جاسکے۔

پاکستانی معاشرے کے بعض طبقات یہ دلیل دیتے ہیں کہ ٹی ایل پی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے جو سیاسی جماعتوں کو اپنی مطلوبہ سمت میں چلانے کیلئے اور چالاکی کے ساتھ بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے سامنے لائی گئی۔ شاید ایسا ہی ہو، تاہم سوشل میڈیا پر بہت سے غیر سیاسی افراد کو بھی ٹی ایل پی کے حق میں نرم رویہ اختیار کرتے دیکھا گیا ہے جن کا ماضی میں تحریکِ لبیک سے کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے فرانس کے اس اقدام پر ہم سب کو غصہ ہے۔ لیکن ہمیں کسی اور کا آلۂ کار بننے کی ضرورت نہیں۔ فرانس کے خلاف مشترکہ اظہارِ مذمت کیلئے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ سمیت دیگر متعدد ذرائع استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ آئیے ہم سیاست کے اِس عالمی کھیل میں کسی کا پیادہ یا آلۂ کار بننے کی بجائے کھلاڑی کی حیثیت سے حصہ لیں۔