حضرت سلیمان علیہ اسلام کی دعا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں کبھی کامیابی پر خوش ہوتا ہے تو کبھی بہت زیادہ خوش دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ ہمیں پرکھتاہے کہ ہمارے دلوں میں کیا چل رہا ہے۔ اس لئے ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں کبھی بھی اُس حد کو عبور نہ کریں کہ جس سے اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہوجائے۔

لہٰذا حضرت سلیمان علیہ اسلام کی ایک ایسی دعا ہے جو کہ ہمیں عاجزی کا درس دیتی ہے، ”اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیرے احسان کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا اور یہ کہ میں نیک کام کروں جو تو پسند کرے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل کر لے۔‘‘ (سورہ نمل آیت 19)۔

یہ دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں کبھی بھی مایوس ہونا یا خود کو کوسنا نہیں چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ کی پہلے سے دی ہوئی نعمتوں کا شکرادا کرنا چاہیے، ہمیں اپنے اردگرد ایسی نعمتوں کو تلاش کرنا چاہیے کہ جو ہمارے پاس ہوں اور کسی کے پاس نہ ہوں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم سب میں اچھی خصلتیں اور خاص خصوصیات ہیں جو ہمیں منفرد بناتی ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی سلطنت دی تھی جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہواؤں کو چلانے، انسانوں اور جنوں پر قابو پانے کی طاقت بھی عطا کی تھی اور آپ چیونٹیوں کی بات کو بھی سمجھ سکتے تھے۔

اگر حضرت سلیمان علیہ اسلام جیسی طاقت کسی عام انسان کے پاس ہوتی تو وہ ضرور بگڑ جاتا لیکن حضرت سلیمان علیہ اسلام نے کبھی خود پر غرور نہیں کیا بلکہ ہمیشہ عاجز رہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔ اس طرح اگر ہم سلیمان علیہ السلام کی طرح اللہ کا شکر ادا کرنے کی خواہش کو محسوس کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں کس طرح نوازا ہے بجائے اس کے، کہ ہم یہ دیکھیں کہ ہم میں کیا کمی ہے۔

جو بھی لوگ کامیاب ہوتے ہیں اُن پر یہ بات بہت جلدی حاوی ہوتی ہے کہ اُن کو جو بھی کامیابی حاصل ہورہی ہے وہ اُن کی اپنی وجہ سے ہے اُس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے( نعوذباللہ)، کامیاب لوگ یہ بات سمجھنے لگتے ہیں کہ اُن کی کامیابی صرف اور صرف ان کی اپنی کوششوں سے ہے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ کامیابی دی ہے۔ تاہم، سلیمان علیہ اسلام کی دعا ہمیں عاجزی اور اللہ کی تمام نعمتوں کو تسلیم کرنے اور ان کی قدر کرنے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔

حضرت سلیمان علیہ اسلام کی دعا کا دوسرا پہلو اللہ کی طرف سے ہمیں اچھے والدین عطا کرنے کی نعمت کا شکرگزار ہونا ہے۔ ہمیں ان اچھی چیزوں، احسانوں اور باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے جو ہمارے والدین نے ہمارے لیے کیے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہونے کا ایک بنیادی حصہ ہے اور یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ آج ہماری کامیابی بھی ہمارے والدین کی وجہ سے ہے جب ہم کچھ بھی نہیں تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کے ذریعے سے ہم پر احسان نہ کرتا تو آج ہماری حیثیت زمین پر پڑے ذرے سے زیادہ نہ ہوتی، نہ ہی ہمارے پاس کوئی نعمت ہوتی۔

اس دعا کا تیسرا پہلو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے نیک اعمال کرنا ہے۔ جب ہم کامیاب ہو جاتے ہیں تو برے کام شروع کرنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی ہم سے سوال نہیں کر سکتا۔ ایک بہت ہی مشہور کہاوت ہے،“مکمل طاقت انسان کو بالکل خراب کر دیتی ہے اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ ہم اس طاقت کو اچھے مقصد کیلئے استعمال کریں اور معاشرے میں بہتری لانے کی وجہ بنیں۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم جب بھی کوئی نیک کام کریں تو اُس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنا ہو، نہ کہ لوگوں سے تعریف اور داد وصول کرنا۔

حضرت سلیمان علیہ اسلام کی دعا سے آخری سبق ہمیں عاجزی کا ملتا ہے،کہ اے اللہ اپنی رحمت سے مجھے نیک بندوں کی فہرست میں داخل کر۔” اس دعا میں حضرت سلیمان علیہ اسلام للہ سبحانہ و تعالیٰ سے التجا کر رہے ہیں کہ ان تمام چیزوں سے پہلے جو وہ چاہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نیک لوگوں میں شامل ہونا۔ خیال رہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے تاہم ان کی نظر میں اللہ کی ذات ہی سب سے بڑھ کر اہم ہے، اُن کی نظر میں ایک ہی شخصیت اہم ہے وہ اللہ تعالیٰ، وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے جنت میں داخل ہوتے ہیں اسی لئے وہ نیک لوگوں کی فہرست میں داخل ہونا چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب اُن کی بادشاہی میں کوئی بھی اُن سے ملنے کیلئے آتا تھا تو وہ اُس کا منصب دیکھے بغیر اُس سے ملتے تھے۔

حضرت سلیمان علیہ اسلام کی دعا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں ان کا شکر ادا کریں اور جو کچھ ہمارے پاس نہیں ہے اسے بھول جائیں۔ مزید برآں، دعا عاجزی کی اہمیت اور نیک لوگوں کی صحبت میں رہنے اور اپنے منصب کو پیچھے چھوڑ کر لوگوں سے نیک سلوک کا درس دیتی ہے۔

Related Posts