افغان صورتحال: پاکستان کے لیے ایک چیلنج

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

شورش شروع ہونے سے اب تک افغان حکومت کا طالبان سے لڑنے کے حوالے سے مشکل ترین ہفتہ رہا ہے۔ طالبان کے مطابق گزشتہ جمعہ کے بعد سے اب تک 19 دارالحکومت پر انہوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے جب طالبان نے 2001 کے بعد دوبارہ ان شہروں پر قبضہ کرلیا ہے جہاں سے انہیں بےدخل کیا گیا تھا۔

کابل پر طالبان کا قبضہ۔ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ خواب اب سالوں اور مہینوں پر محیط ہے۔ تاہم اب طالبان کی جاری پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اب دنوں کی کہانی ہے۔ طالبان “اسلامی ریاست” کے لیے پرعزم ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں بھی تشویش پائی جارہی ہے۔

اسلام آباد کے لیے ایک بڑی تشویش یہ ہے کہ طالبان کے عروج کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان پر اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے افغان طالبان سے قریبی تعلقات ہیں اور اس نے حال ہی میں پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردی ہیں۔  ٹی ٹی پی نے واقعی پاکستان کے خلاف اپنے پرتشدد کارروائیوں کر بڑھا دیا ہے۔ ان کی جانب سے گزشتہ 6 سے 12 ماہ کے دوران مختلف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔

اقوام متحدہ کی سیکورٹی کمیٹی نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ القاعدہ کی قیادت کا ایک اہم حصہ پاکستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں رہتا ہے۔ بڑھتے ہوئے عدم استحکام سے لگتا ہے کہ مختلف بین الاقوامی عسکریت پسند گروپوں کو افغانستان میں کام کرنے کا دوبارہ موقع مل جائے گا۔

پاکستان طویل عرصے سے افغان طالبان کے لیے قابض افواج سے لڑنے کی پناہ گاہ رہا ہے۔ پاکستان طالبان کو امریکی حکام سے مذاکرات میز پر لایا تھا۔ اور پاکستان ایک طاقتور فریق کی حیثیت سے سامنے آیا تھا ، تاہم لگتا ہے کہ یہ طاقت امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔

ظاہری طاقتور اسباب کے باوجود اسلام آباد کے لیے مشکلات سے بچنا مشکل ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ہمارے پالیسی سازوں کو وقت کی سنگینی کا احساس ہے یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے، اور ان آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے واضح حکمت عملی طے کررکھی ہے یا نہیں۔

دریں اثناء افغانستان کی حکومت نے ملک میں تباہی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان حکام کا خیال ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر طالبان ممکنہ طور پر افغانستان پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف دوحہ امن مذاکرات بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔

اشرف غنی حکومت اور طالبان کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔ غنی انتظامیہ نے یا تو شتر مرغ کی طرح دیوار میں منہ دے رکھا اور نوشتہ دیوار نہیں پڑھ رہی ہے، اس اپنی اجتماعی ناکامیوں پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا آسان محسوس ہورہا ہے۔ ادھر واشنگٹن اسلام آباد پر دباؤ بڑھا رہا ہے کہ وہ طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں ایک امن پسندانہ معاہدے پر قائل کرے۔

امریکا نے افغانستان سے اخراج کا فیصلہ اتنا ہی افراتفری میں لیا ہے جتنی اس نے افغانستان پر حملہ کرتے وقت جلدبازی دکھائی تھی۔ جب دنیا کی سب سے بڑی طاقت نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے پاس کوئی واضح مقصد نہیں تھا، اور اب جبکہ وہ 20 سال بعد جارہا ہے تو افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اور مختلف جنگجو گروہوں کے درمیان تسلط کے لیے جنگ جاری ہے۔

پاکستان کو اپنے ملک میں افغان خانہ جنگی کے خطرے کے پیش نظر بہت محتاط راستے اختیار کرنا ہوگا کیونکہ یہ ہماری قومی سلامتی کے لیے ماضی کے مقابلے میں زیادہ سنگین اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

Related Posts