اُردو کے باکمال شاعر جونؔ ایلیا کو مداحوں سے بچھڑے ہوئے 17 برس مکمل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اُردو کے باکمال شاعر جونؔ ایلیا کو مداحوں سے بچھڑے ہوئے 17 برس مکمل
اُردو کے باکمال شاعر جونؔ ایلیا کو مداحوں سے بچھڑے ہوئے 17 برس مکمل

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج اُردو زبان کے باکمال شاعر جونؔ ایلیا کو مداحوں سے بچھڑے ہوئے 17 برس مکمل ہوچکے ہیں جبکہ شاعری کے موضوعات، طرزِ اظہار اور جدید شاعری کے رجحانات کا حسین امتزاج جو جونؔ کے حصے میں آیا، آج تک کسی کو نہ مل سکا۔ 

نامور شاعر جونؔ ایلیا کا اصل نام جون اصغر اور تخلص جون تھا جو دسمبر 1931ء میں بھارت کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ جونؔ ایلیا کا گھرانہ برصغیر کی علمی و ادبی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل کیونکہ اس گھرانے سے صرف جونؔ نہیں بلکہ رئیسؔ امروہوی بھی پیدا ہوئے۔

رئیسؔ امروہوی جونؔ ایلیا کے بڑے بھائی تھے جبکہ جونؔ ایلیا کی طرح انہیں بھی ایک باکمال شاعر، صحافی اور ادیب سمجھا جاتا ہے جو جونؔ کے دور سے قبل وفات پا چکے تھے، اس لیے دونوں بھائیوں میں ادب کا کوئی قابلِ ذکر معرکہ دیکھنے میں نہ آسکا۔

جونؔ ایلیا نے ابتدائی تعلیم اپنے والد شفیق حسن ایلیا سے حاصل کی اور اُردو، فارسی اور عربی میں تعلیمی اسناد حاصل کیں۔ بھارت کے شہر امروہہ سے کراچی منتقلی کا جونؔ ایلیا کو بہت غم تھا، کہ امروہہ ان کا وطن تھا جس سے وہ پیار کرتے تھے۔

پاکستان کی نامور کالم نگار زاہدہ حنا سے 1970ء میں شادی کرنے والے جونؔ ایلیا نے ان کے ساتھ مل کر کافی عرصے تک عالمی ڈائجسٹ پر کام کیا تاہم اپنی وفات سے بہت پہلے جونؔ اور زاہدہ حنا الگ ہوچکے تھے۔

جن لوگوں نے جونؔ ایلیا کی نثر پڑھی ہے وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ جونؔ صرف ایک شاعر نہیں بلکہ بہترین ادیب بھی تھے اور انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ جہانِ نثر میں بھی اپنی شاعری کا لوہا منوایا، تاہم شہرتِ دوام کی وجہ شاعری رہی۔

میں بھی بہت عجیب ہوں، اِتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا، اور ملال بھی نہیں

میرے کتنے ہی نام اور ہم نام

میرے اور میرے درمیان میں تھے

غزل گوئی کے ساتھ ساتھ قطعہ نگاری میں بھی جونؔ ایلیا کا ایک خاص مقام تھا، خاص طور پر یہ اشعار:

جو رعنائی نگاہوں کے لیے سامانِ جلوہ ہے

لباسِ مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی

یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ

یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی

دُنیائے شاعری شاید جونؔ ایلیا کو نظم گوئی کے معیار پر سند تسلیم نہ کرتی ہو، لیکن انہوں نے نظم کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دِکھائے ہیں، مثال کے طور پر “سزا” کے عنوان سے یہ سادگی و سلاست سے لبریز نظم:

ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم

ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں

تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم

میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا ہوں میں

تم مجھ کو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں

اور اس طرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں

تم جس زمین پر ہو میں اس کا خدا نہیں

پس سر بسر اذیت و آزار ہی رہو

بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم

جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو

تم کو یہاں کے سایہ و پرتو سے کیا غرض

تم اپنے حق میں بیچ کی دیوار ہی رہو

میں ابتدائے عشق سے بے مہر ہی رہا

تم انتہائے عشق کا معیار ہی رہو

تم خون تھوکتی ہو یہ سن کر خوشی ہوئی

اس رنگ اس ادا میں بھی پرکار ہی رہو

میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات

میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو

اپنی متاع ناز لٹا کر مرے لیے

بازار التفات میں نادار ہی رہو

جب میں تمہیں نشاط محبت نہ دے سکا

غم میں کبھی سکون رفاقت نہ دے سکا

جب میرے سب چراغ تمنا ہوا کے ہیں

جب میرے سارے خواب کسی بے وفا کے ہیں

پھر مجھ کو چاہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں

تنہا کراہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں

Related Posts