مینار پاکستان پر لوگوں نے گھنٹوں ہراساں کیا،کپڑے تار تار کیے اور لوٹ مار کی، ٹک ٹاکر عائشہ اکرم

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مینار پاکستان پر لوگوں نے گھنٹوں ہراساں کیا،کپڑے تار تار کیے اور لوٹ مار کی، ٹک ٹاکر عائشہ اکرم
مینار پاکستان پر لوگوں نے گھنٹوں ہراساں کیا،کپڑے تار تار کیے اور لوٹ مار کی، ٹک ٹاکر عائشہ اکرم

مینار پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں ہونے والے ایک خوفناک واقعے نے پورے پاکستان کو غمزدہ کر دیا ہے۔ عائشہ اکرم نامی ایک ٹک ٹاکر کو دن کی روشنی میں 400 افراد کے ہجوم نے ہراساں کیا ، مارا پیٹا اور لوٹا، مگر کوئی اسے بچانے نہیں آیا۔

یہ افسوس ناک واقعہ لاہور کے مینار پاکستان پر یوم آزادی کے موقع پر پیش آیا ، وہ جگہ جہاں قائداعظم نے 1947 میں اپنی ایک تاریخی تقریر کی تھی۔

ہراسگی اور ذلالت کا شکار ہونے والی خاتون عائشہ اکرم نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف بولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عائشہ اکرم کے مطابق اسے تین گھنٹے تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، شام 6.30 سے ​​رات 9 بجے تک اسے کوئی بچانے نہیں آیا حتیٰ کہ پولیس بھی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میری ٹیم کے ساتھیوں نے مدد کے لیے پولیس کو بھی کال کی تھی مگر پولیس کی جانب سے بھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

ڈیلی پاکستان کو آنسو بھری آنکھوں سے انٹرویو دیتے ہوئے عائشہ اکرم کا کہنا تھا کہ ہجوم والے لوگ بار بار میرے بالوں کو پکڑ کر کھینچ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں مسلسل رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ میں اچھی ویڈیو بناتی ہوں ۔ مگر وہ لوگ مجھ پرمسلسل تشدد کرتے جارہے تھے۔

عائشہ کے مطابق اگر کوئی عورت اپنے ملک میں محفوظ نہیں ہے تو وہ کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ اکرم نے کہا کہ میں یوٹیوبر یا ٹک ٹاکر ہوں ، کسی کو بھی حق نہیں ہے کہ میں جو کچھ بھی کررہی ہوں اس کی پاداشت میں برہنہ کرے۔

انہوں نے جسمانی تشدد کے حوالے سے بتایا کہ ” میرے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں بچی ہے جہاں کوئی نشان نہ ہو۔” انہوں نے مزید کہا ، “میں نے کوئی فحش لباس زیب تن نہیں کیا ہوا تھا۔ اور نہ کبھی فحش لباس پہنتی ہوں ۔ پھر بھی مجھے میری آنکھوں کے سامنے بے لباس کردیا گیا۔”

ایک سوال کے جواب میں عائشہ اکرم کا بتانا تھا کہ ” جو لوگ میری مدد کررہے تھے اصل میں وہی لوگ میرے ساتھ بدتمیزی کررہے تھے۔ اگر ایک شخص میرے جسم پر کپڑا دیتا تو دوسرا اتار دیتا تھا۔

عائشہ کا مزید کہنا تھا کہ بلاآخر میں میں زمین پر لیٹ گئی ، پیاس کی شدت سے میرا دم گھٹ رہا تھا ، اسی لمحے ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور مجھے پانی پلانے کی کوشش کی لیکن میں پی نہیں سکی اور بے ہوش ہوگئی۔”

عائشہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حکومت سے امن و امان برقرار نہیں رکھا جاسکتا تو عوامی مقامات پر صرف فیملیز آنے کی اجازت دی جائے اور باقی لوگوں پر پابندی لگا دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: 400 درندے؟ لاہور میں کیا ہوا اور کیوں ہوا؟

Related Posts