کرا چی: ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے کہا کہ پاکستان کو تحقیق اور شواہد پر مبنی مقامی حل کے ذریعے پانی کے تحفظ کے لیے سرمایہ کاری اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایف پی سی سی آئی کی سینٹرل اسٹینڈنگ کمیٹی برائے آبی وسائل پر انڈسٹری اکیڈیمیا تعاون کے پہلے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
مہمانِ خصوصی، ضیغم محمود رضوی، چیئرمین وزیر اعظم ٹاسک فورس برائے نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم نے کہا کہ پاکستان کے معزز وزیر اعظم عمران خان پانی کی کمی اور پانی کے تحفظ کی بڑھتی ہوئی ضرورت سے مکمل طور پر آگاہ ہیں۔
ضیغم رضوی نے مزید کہا کہ ہمیں ری سائیکلنگ کے طریقہ کار کو بڑے پیمانے پر اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں پانی کے استعمال کو باقی دنیا کے طور پر بہتر بنایا جا سکے۔ بصورت دیگر، پاکستان انڈسٹری اور عام آدمی کے پانی کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہمیں پینے کے پانی اور دیگر گھریلو ضروریات کے لیے درکار پانی میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔
میاں ناصر حیات مگوں نے کہا کہ پانی کی دائمی قلت کی وجہ سے انڈسٹری شدید مشکلات کا شکار ہے اور ٹینکروں کے ذریعے فراہم کیا جانے والا پانی بہت مہنگا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پانی پر اٹھنے والے اخراجات پاکستانی برآمد کنندگان کی مسابقت اور پیداواری لاگت کو کافی حد تک متاثر کر رہی ہے۔
ناصر حیات منگوں نے بارش کے پانی سے آبپاشی اور ڈرپ اریگیشن کی تکنیکوں کو جنگی بنیادوں پر اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ کیونکہ ان تکنیکوں کو کم سے کم سرمایہ کاری اور کم سے کم وقت میں استعمال میں لا یا جا سکتا ہے۔
ایف پی سی سی آئی کی مرکزی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے کنوینر وسیم ووہرا نے کہا کہ ایف پی سی سی آئی پرامید ہے کہ محمود رضوی پانی کی قلت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات پر وزیر اعظم کے ساتھ کاروباری برادری کے خدشات کو اٹھائیں گے۔
ایف پی سی سی آئی ملک کے پانی کے مسائل کے حل کے لیے تعلیمی اداروں اور حکومت پاکستان کے ساتھ اشتراک کرنے پر آمادہ ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بیٹھانے کے لیے تیار ہے،تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو پانی کی کمی اور دائمی قلت سے بچایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: این سی او سی نے یکم اکتوبر سے ویکسی نیشن کے بغیر ریلوے کے سفر پر پابندی عائد کردی