کاٹن مارکیٹ کا ہفتہ وار جائزہ، روئی کے بھاؤ میں اتار چڑھاؤ کے بعد تیزی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کاٹن مارکیٹ کا ہفتہ وار جائزہ، روئی کے بھاؤ میں اتار چڑھاؤ کے بعد تیزی
کاٹن مارکیٹ کا ہفتہ وار جائزہ، روئی کے بھاؤ میں اتار چڑھاؤ کے بعد تیزی

کراچی: روئی کے بھاؤ میں اتار چڑھاؤ کے بعد تیزی دیکھنے کو ملی، حکومت کی مقرر کردہ پھٹی کا مداخلتی بھاؤ فی 40 کلو 8500 روپے پر پھٹی خریدنے کا حکومتی ذرائع کے بیجاں دباؤ کی وجہ سے کاٹن مارکیٹ میں بحران پیدا ہوگیا۔ جنرز نے فیکٹریاں بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کی مقررہ بھاؤ پر روئی بنولہ اور تیل خریدنے کی واضح حکمت عملی تیار کریں اور بنولہ پر ناجائز ٹیکس فوری ختم کرے اور بجلی کا مسلہ بھی حل کرے۔ PCGA. حکومت اور جنرز کے درمیان کشمکش میں کپاس کے کاشتکار مشکل میں آجائیں گے۔کپاس کی فصل بھی متاثر ہوگی۔

سینیٹر سحر کامران کا کہنا تھا کہ حکومت مداخلت کرکے کپاس کے کسانوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے اقدامات کرے۔سابق صدر آصف علی زرداری نے پھٹی کی مداخلتی قیمت 8500 روپے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران روئی کے بھاؤ میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ کے بعد استحکام رہا عید الاضحی کی تعطیلات میں کپاس کے کاشتکار اور جنرز نے گھبراٹ بھری فروخت شروع کردی تھی جس کی وجہ سے روئی کے بھاؤ میں غیر معمولی کمی واقع ہونے کی وجہ سے روئی کا بھاؤ فی من 16000 تا 16200 روپے کی انتہائی نیچی سطح پر آگیا تھا لیکن زیر جائزہ ہفتہ کے آغاز میں بھاؤ میں مندی کے بعد بہتری اتی رہی بالآخر بدھ کی شام سے روئی کے بھاؤ میں اضافہ ہونے لگا صوبہ سندھ میں روئی کا بھاؤ فی من 17000 تا 17300 روپے اور صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 17500 تا 17700 روپے ہوگیا۔

دوسری جانب بدھ کے روز ملک میں سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والے صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ کے ڈی سی نے جنرز کو فی 40 کلو پھٹی حکومت کے مقرر کردہ 8500 روپے کے بھاؤ پر خریدنے کی ہدایت کی جس کی وجہ سے جنرز نے پھٹی لینا بند کردی نتیجاً کپاس کے کاشتکاراضطراب میں مبتلا ھوگئے اور کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ کچھ جننگ فیکٹریوں میں علاقے کی پولیس نے روئی کی ڈیلیوری کے لئے تیار کھڑے ٹرالے بھی باہر نکال دیئے۔

صوبہ سندھ میں روئی کا بھاؤ فی من 17000 تا 17300 روپے اور پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 7000 تا 7300 روپے صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 17500 تا 17700 روپے پھٹی کا بھاؤ fi40 کلو 7200 تا 7700 روپے رہا صوبہ بلوچستان میں روئی کا بھاؤ فی من 17000 تا 17200 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 7200 تا 7600 روپے رہا۔بنولہ کھل اور تیل کا بھاؤ مستحکم رہا۔

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 500 روپے کم کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 17000 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔

کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ میں اتار چڑھاؤ رہا۔ USDA کی ہفتہ وار برآمدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 23-2022 کیلئے 1 لاکھ 9 ہزار 200 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔

چین 61 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔
مکسیکو 33 ہزار 100 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔
ویت نام 13 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔
سال 24-2023 کیلئے 1 لاکھ 30 ہزار گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔
چین 76 ہزار 100 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔
ترکی 15 ہزار 900 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔
جاپان 10 ہزار 600 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔
میکسیکو 6 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر چوتھے نمبر پر رہا۔
پاکستان 4 ہزار 400 گانٹھیں خرید کر پانچویں نمبر پر رہا۔
برآمدات 2 لاکھ 60 ہزار 100 گانٹھوں کی ہوئی۔
ترکی 64 ہزار 300 گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔
چین 62 ہزار 300 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔
پاکستان 41 ہزار گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔

دریں اثنا چیئرمین پی سی جی اے چوہدری وحید کی صدارت میں پی سی جی اے کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 6 جولائی 2023 کو پی سی جی اے ہیڈ آفس ملتان میں منعقد ہوا. اجلاس میں حکومت کی جانب سے جننگ انڈسٹری پر عائد غیر منصفانہ ٹیکسز کے حوالے سے بات چیت کی گئی جس میں خصوصاً بنولہ پر عائد سیلز ٹیکس، نیپرا کی جانب سے فکسڈ چارجز اور NHA کے نوٹسز شامل ہیں۔

اجلاس میں متفقہ طور پر طے پایا کہ کاٹن جنرز پورے پاکستان میں کپاس کی خریداری کو معطل کر دیں گے. بار بار حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی جا رہی جس کی تازہ تر مثال بنولہ پر سیلز ٹیکس کے نوٹسز اور 8500 روپے سپورٹ(intervention) پرائس شامل ہیں۔

چونکہ ریٹ 8500 روپے سے نیچے جا چکا ہے تو اس کو ممکن بنانے کے لیے تا حال حکومت کی جانب سے روئی کی خریداری پر کوئی پالیسی واضع نہ کی ہے. پی سی جی اے کی تمام قیادت نے واضع کیا ہے کہ کاٹن جننرز پر بلا وجہ دباؤ نہ ڈالا جائے اور جب تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جائیں گے تب تک ہم کپاس کی خریداری کو معطل رکھیں گے۔

پی سی جی اے کے سابق چیئرمین ڈاکٹر جیسومل نے بھی حیدرآباد میں پریس کانفرنس منعقد کرکے احتجاج کیا تھا۔
علاوہ ازیں سینیٹر سحر کامران نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ حکومت نے 40 کلو گرام کپاس کا ریٹ 8500 روپے مقرر کیا ہے، لیکن مقامی خریدار اور فیکٹری مالکان حکومتی ہدایات پر عمل کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔

فی الحال، کاشتکاروں کو 40 کلو کپاس کا ریٹ 7200 روپے دیا جا رہا ہے، جس سے ڈیزل، کھاد، بیج، کیڑے مار ادویات اور دیگر متعلقہ اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کاشت کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ جس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ حکومتی حکام اور ڈپٹی کمشنرز نے اس صورتحال کا نوٹس لیا ہے، لیکن سرکاری نرخوں پر عمل درآمد اب بھی ایک سنگین چیلنج ہے، جس سے کاشتکاروں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، وہ زیادہ دیر تک سٹاک نہیں رکھ سکتے، اور اگر بارش ہوتی ہے تو کپاس کی قیمت مزید کم ہو جائے گا۔

سندھ کے کاشتکاروں کو پچھلے سال کے تباہ کن مون سون سے بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے اور وہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے ہیں۔ جبکہ فیکٹری مالکان اور جننگ ملز کی اپنی اجارہ داریاں اور مجبوریاں ہیں جس کی وجہ سے وہ سرکاری نرخوں پر کپاس کی خریداری سے گریزاں ہیں۔
لہٰذا، حکومت کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ‘جب تمام متعلقہ خطرات کاشتکاروں اور کسانوں کو برداشت کرنا پڑتے ہیں تو وہ جنرز سے کیوں خریدیں۔

چونکہ یہ مسئلہ زراعت اور معیشت کی پائیداری کے لیے انتہائی اہم ہے، اس لیے پالیسی کی خامیوں کی نشاندہی اور سمجھنا اور بروقت اصلاحی اقدامات کرنا اولین ترجیح ہے۔ حکومت کو مداخلت کرنی چاہیے اور کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، اور کاشتکاروں سے براہ راست خریداری کا بندوبست کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر، پاکستان کپاس اگانے والے/برآمد کرنے والے ملک سے خالص کپاس درآمد کرنے والے ملک میں تبدیل ہو جائے گا۔

احسان الحق ممبر سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی PCGA نے ڈسٹرکٹ کاٹن  مینجمنٹ کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے کاٹن جنرز کا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ آجکل کاٹن جنرز کی جانب سے کپاس کی خریداری معطل ہونے کے باعث سندھ میں خاص طور پر جبکہ پنجاب میں عمومی طور پر کپاس کا ایک بڑا بحران دیکھا جا رہا ہے جس کے باعث کاشتکاروں اور کاٹن جنرز میں بڑی تشویش دیکھی جا رہی ہے کپاس کے اس بحران کی بڑی وجہ چند روز قبل روئی کی مارکیٹس اچانک کریش کر جانا ہے جس کے دوران روئی کی قیمتیں ریکارڈ دو ہزار روپے فی من کمی کے بعد سولہ ہزار 500 سے سترہ ہزار روپے فی من تک گر گئی ہیں جس کے باعث کپاس(پھٹی) کی قیمتوں میں بھی غیر معمولی کمی واقع ہو گئی ہے اور پھٹی کی قیمتیں چھ ہزار 500 سے سات ہزار روپے فی چالیس کلو گرام تک گر گئی ہیں جس سے کاشت کاروں کی فی ایکڑ آمدنی میں ریکارڈ کمی کا خدشہ ہے۔

کاشت کاروں کے احتجاج پر سندھ کے بیشتر اضلاع جبکہ پنجاب میں وہاڑی ضلع میں ضلعی انتظامیہ نے کاٹن جنرز پر زور دیا ہے کہ وہ حکومتی مقرر کردہ کپاس کی مداخلتی قیمت آٹھ ہزار500vروپے فی چالیس کلو گرام کے حساب سے پھٹی کی خریداری کریں ورنہ انکے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اس سال وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ملک بھر میں ”زیادہ کپاس اگاؤ“ مہم کے تحت پچھلے سالوں کے مقابلے میں زیادہ کپاس کاشت کروائی تھی تاکہ کپاس اور خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر بچائے جا سکیں اور اسی مہم کے دوران وفاقی حکومت نے کپاس کی مداخلتی قیمت آٹھ ہزار 500 روپے فی چالیس کلو گرام مختص کرتے ہوئے میکنزم طے کیا تھا کہ کپاس کی قیمتیں مداخلتی قیمت سے کم ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت  ٹی سی پی کے ذریعے کاٹن جنرز سے ابتدائی طور پر دس لاکھ روئی کی بیلز کی خریداری کرے گی تاکہ مارکیٹ میں استحکام آنے سے پھٹی کی قیمتیں بہتر ہو سکیں۔

لیکن کچھ عرصہ قبل وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکسٹائل ملز سے بجلی اور گیس کے سبسڈائزڈ نرخ واپس لینے اور بجلی و مارک اپ کے نرخوں میں ریکارڈ اضافے کے باعث ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے روئی کی خریداری انتہائی محدود ہونے کے باعث روئی کی قیمتوں میں کمی کے باعث پھٹی کی قیمتیں مداخلتی قیمت سے کم ہونے سے وفاقی حکومت کی جانب سے ٹی سی پی کے ذریعے روئی کی خریداری کی بجائے کاٹن جنرز کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ کاشتکاروں سے پھٹی مداخلتی قیمت آٹھ ہزار پانچ سو روپے فی چالیس کلو گرام کے حساب سے خریداری کریں چاہے روئی کے نرخ جو مرضی ہوں اور ٹیکسٹائل ملز روئی کی خریداری کریں چاہے نہ کریں جو کہ کاٹن جنرز کے لئے ممکن نہیں ہے۔

دوسرا اہم ایشو کاٹن سیڈ (بنولہ) پر اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس ہے جو کہ قبل ازیں وفاقی حکومت نے وفاقی بجٹ 2022-23ء میں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جسے بعد میں صرف بیج کے لئے استعمال ہونے والے کاٹن سیڈ تک محدود کر دیا گیا جس کا کاٹن جنرز کو علم نہ ہو سکا اور اب انہیں ایف بی آر کی جانب سے کروڑوں روپے سیلز ٹیکس ادائیگی کے نوٹس آ رہے ہیں جو کہ ادا کرنا کاٹن جنرز کے لئے ممکن نہیں ہے
اس صور حال میں کاٹن جنرز نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ کاٹن سیڈ پر عائد اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس فوری طور پر واپس لیا جائے اور ٹی سی پی کو چاہیئے کہ وہ کاٹن جنرز سے کپاس کے نرخ آٹھ ہزار پانچ سو روپے فی چالیس کلوگرام کے تناسب سے روئی کی خریداری کرے تاکہ پھٹی کی قیمتیں دوبارہ مداخلتی قیمت کی سطح تک پہنچ جائیں جبکہ وفاقی حکومت کو ٹیکسٹائل ملز سے واپس لی جانے والی سبسڈیز بھی بحال کرنے کے ساتھ ساتھ مارک اپ کی شرح میں بھی کمی کرے تاکہ ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے روئی کی خریداری دوبارہ شروع ہونے سے پھٹی کی قیمتیں مستحکم ہو سکیں۔

مزید پڑھیں:تجارتی تعلقات کا نیا سفر شروع، روس سے پہلے مال بردار ٹرک کی پاکستان آمد

آصف زرداری کی ہدایت کے بعد محکمہ زراعت نے کپاس کی قیمت طے کر دی، سندھ بھر میں کپاس کی فی من قیمت 8500روپے مقرر کردی گئی۔ تفصیلات کے مطابق آصف زرداری کی جانب سے ہدایت کے بعد محکمہ زراعت نے کپاس کی قیمت طے کر دی ہے، سندھ بھر میں کپاس کی فی من قیمت 8500روپے مقرر کی گئی ہے، محکمہ زراعت نے اس سلسلے میں نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔ایگریکلچر افسران کو کسانوں کو محکمہ زراعت کی جانب سے طے کردہ قیمت دلانے کی ہدایت کی گئی ہے، آصف زرداری نے کپاس کی قیمتوں سے متعلق وفاق سے احتجاج کیا تھا، وزیر زراعت سندھ منظور وسان نے آصف زرداری کی ہدایت پر نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔محکمہ زراعت کا کہنا ہے کہ کسانوں کو فیکٹری سے مقررہ قیمت نہ ملنے کی شکایات ہیں، سندھ کے کسانوں کو مقررہ قیمت کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے۔

Related Posts