عہدِ حاضر میں علامہ اقبال کے فکر و فلسفے سے استفادہ کرنے کی ضرورت

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کا 83واں یومِ وفات آج منایا جارہا ہے
پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کا 83واں یومِ وفات آج منایا جارہا ہے

فکرِ اقبال کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ آج 100 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ہمیں اس پر عمل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

وقت بڑی ظالم شے کا نام ہے، بڑے بڑے جنگجو، حکمران، سیاستدان، دانشور، فلسفی اور شعراء منوں مٹی تلے جاسوئے اور آج ان کا نام لیوا تک کوئی نہیں لیکن فکرِ اقبال نے ہر دور میں خود کو زندہ و تابندہ ثابت کیا۔

علامہ اقبال جنہیں اہلِ پاکستان سمیت دُنیا بھر کے اقبالّ شناس شاعرِ مشرق، حکیم الامت اور صوفی شاعر سمیت دیگر قابلِ قدر القابات سے یاد کرتی ہے، ان کا 143واں یومِ پیدائش آج منایا جارہا ہے اور آج ہی ہمیں علامہ اقبال کے فلسفے سے استفادہ کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

علامہ اقبال کے مختصر حالاتِ زندگی

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، والد کا نام شیخ نور محمد اور والدہ کو بے جی کے نام سے پکارا جاتا تھا جبکہ آپ کا خاندان مذہبی اعتبار سے سیالکوٹ میں خاصا اہم سمجھا جاتا تھا۔

مولانا غلام حسین نے ایک استاد کی حیثیت سے علامہ اقبال کو قرآنِ پاک سکھایا۔ شمس العلماء مولوی میر حسن نے علامہ اقبال کو ابتدائی تعلیم دی۔ علامہ اقبال ذہانت میں ہم عمر بچوں سے بے حد آگے تھے اور حاضر جوابی بھی اپنی مثال آپ تھی۔

جب علامہ اقبال 16 برس کے تھے، آپ نے میٹرک کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ 1895ء میں ایف اے کیا اور مزید تعلیم کیلئے لاہور کا رخ کر لیا۔

لاہور میں انگریزی، عربی اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ ایم اے فلسفہ میں داخلہ لینے کے بعد آپ کو پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے پڑھایا۔ مارچ 1899ء میں علامہ اقبال نے ماسٹرز میں صوبے بھر میں اوّل آنے کا اعزاز حاصل کیا اور شاعری تو ایف اے کے دور سے ہی شروع ہوچکی تھی۔

شاعری کی ابتدا 

ایک مفکر اور فلسفی کے طور پر علامہ اقبال نے بہترین تحریریں چھوڑی ہیں تاہم آپ کی شاعری آج بھی آپ کے تعارف کا سب سے بڑا استعارہ سمجھی جاتی ہے۔

مشاعروں میں نہ جانے کی وجہ سے علامہ اقبال کو ابتدا میں کوئی نہیں جانتا تھا لیکن کچھ دوست انہیں 1899ء میں حکیم امین الدین کے ہاں کھینچ لائے۔ یہاں علامہ اقبال نے ایک شعر کہا تو آپ کو بہت داد سے نوازا گیا:

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے

قطرے  جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

یہ ایک شاعر کے طور پر علامہ اقبال کے تخلیقی سفر کی ابتدا تھی اور یہیں سے انجمن حمایتِ اسلام کے ملی اور رفاعی جلسوں میں کلام پڑھنے کا آغاز بھی ہوا۔

شاعری کی خصوصیات اور تنقیدی پہلو 

ناقدین نے علامہ اقبال کی شاعری کو مختلف پہلوؤں سے پرکھا اور اس کے تنقیدی پہلوؤں کا بھی جائز لیا ہے۔ غور کیا جائے تو علامہ اقبال کی شاعری اسلام کے بنیادی عقائد جن میں سچائی، عبادات سے محبت، عشقِ خداوندی اور عشقِ رسول ﷺ سے عبارت ہے۔ کوئی ایک شعر ایسا نہیں ملتا جس میں اسلامی عقائد کی نفی کی گئی ہو۔

ابتدا میں شکوہ نامی ایک نظم پر علمائے اسلام نے بھی تنقید کی جس میں علامہ اقبال نے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو کر تاریخِ اسلام کے متعدد حوالوں سے شکوہ و شکایت کی ہے تاہم انہوں نے جوابِ شکوہ لکھ کر علماء کا گلہ دور بھی کردیا۔

خودی اور مردِ مومن کا فلسفہ

اقبال کی نظر میں خودی اثباتِ ذات کا نام ہے یعنی:

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن

دوسری جانب مردِ مومن کا فلسفہ بھی اپنی مثال آپ ہے، علامہ اقبال نے ایک مقام پر یہ فلسفہ انتہائی سادہ الفاظ میں ایک ہی شعر میں سمو دیا ہے:

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن

یعنی مردِ مومن آپ کو چاہے قرآن کا قاری ہی محسوس ہوتا ہو، لیکن اس کے افکار اور کردار دونوں قرآن کے سانچے میں اس طرح ڈھل جاتے ہیں کہ وہ خود بھی قرآن ہی محسوس ہوتا ہے۔

دو قرآنوں کا فلسفہ 

قرآن سے مرادصرف اللہ کی وہ الہامی کتاب ہی نہیں جو خاتم النبیین ﷺ پر نازل ہوئی بلکہ اللہ تعالیٰ جب یہ فرماتا ہے کہ تم اللہ کی آیات پر غور کیوں نہیں کرتے؟ تو اس سے کائنات اور اسرارِ فطرت کی طرف اشارہ بھی مراد لیا جاتا ہے۔

یہاں فلاسفروں نے ایک نیا نکتہ اخذ کیا کہ قرآن ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک قرآن وہ جو حضور ﷺ پر اترا اور دوسرا اللہ تعالیٰ کی ساری کائنات جو اس کی نشانیوں اور اسرار و رموز سے بھری پڑی ہے اور مردِ مومن کو قرآن قرار دے کر بھی اقبالؔ نے اسی فلسفے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

مرزا غالبؔ اور دیگر شعراء سے مقابلہ 

بعض ناقدین علامہ اقبال اور مرزا غالب کا تقابل بھی پیش کرتے ہیں اور بعض اوقات دیگر شعراء کے شعر اٹھا کر اقبالؔ کے مقابلے پر بھی رکھے جاتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ اقبال سمیت کسی بھی شاعر کا کسی دوسرے سے مقابلہ درست نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر مرزا غالبؔ غزل اور عشقیہ شاعری کے ساتھ ساتھ فلسفے پر بھی عبور رکھتے تھے لیکن ان کی وجۂ شہرت نظم کبھی نہ بن سکی جس پر علامہ اقبال کو وہ عبور حاصل تھا جو آج تک کسی شاعر کے حصے میں نہیں آسکا۔

اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ ریاست کا تصور پیش کیا اور یہ واضح کیا کہ ہندو اور مسلمان کے درمیان اتنا ثقافتی اور تاریخی فرق ہے کہ یہ دونوں کبھی ایک نہیں ہوسکیں گے۔یہی تصور آگے چل کر قیامِ پاکستان کے مطالبے کی بنیاد بنا۔ 

فلسفۂ اقبال پر عمل کی ضرورت 

بے شک علامہ اقبال کی وفات قیامِ پاکستان سے قبل ہوئی لیکن ان کے افکار اور نظریات آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ موجودہ دور میں علامہ اقبال کے فکر و فلسفے پر عمل کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان اسلامی افکار سے دور ہو رہے ہیں اور اپنی مذہبی اقدار، فکر و فلسفے اور حقیقی مقصدِ حیات سے دور ہو رہے ہیں۔

ایسے میں علامہ اقبال کے اشعار ہمیں دینِ اسلام کے قریب کرتے ہیں، عشقِ رسول ﷺ کی تعلیم اور اللہ تعالیٰ سے محبت کا درس دے کر زندگی سے قریب کردیتے ہیں۔

وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا

یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے

اے بے خبر ، جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے

خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز

یہی  ہے رختِ سفر میرِ کارواں کیلئے 

 

 

 

Related Posts