معزول شامی صدر بشار الاسد کے بھائی ماہر الاسد کی سینکڑوں لگژریوں گاڑیوں کے بارے میں تہلکہ خیز رپورٹ سامنے آئی ہے۔
عرب میڈیا پلیٹ فارم صحیفہ المرصد نے اپنی ایک ویڈیو رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ماہر الاسد کے گیراج میں 1330 گاڑیاں موجود ہیں اور یہ ساری گاڑیاں ذاتی تفریح کے لیے تھیں۔
ویڈیو میں ایک مرسڈیز کار دکھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسی کاریں ہم صرف فلموں میں دیکھتے ہیں اور یہ سب شامی عوام کے پیسوں سے خریدا گیا ہے۔ ویڈیو میں بلٹ پروف لینڈ کروزر، آوڈی، بی ایم ڈبلیو، لمبورگینی، رینج روور اور پیجو جیسی لگژری ماڈل کی گاڑیاں دکھائی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ ماہر الاسد شامی فوج کی چوتھی ڈویژن کا کمانڈر تھا، جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ایک حفاظتی نیٹ ورک کی سرپرستی کرتا رہا۔ ماہر کا نیٹ ورک مختلف کمپنیوں سے فائدہ اٹھاتا تھا، جو ٹیلی کمیونیکیشنز، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، توانائی اور سیاحت کے شعبوں میں کام کرتی ہیں۔
بشار کی فوج کی چوتھی ڈویژن منشیات کی اسمگلنگ میں بھی ملوث تھی، جس میں کپٹاگون جیسے امفیٹامائنز کے علاوہ دیگر غیر قانونی مواد کی اسمگلنگ شامل تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کا دعویٰ ہے کہ چوتھی ڈویژن سڑکوں پر سرکاری اور غیر سرکاری چیک پوائنٹس کے ذریعے ٹریفک سے فیس وصول کرتی تھی اور تجارتی نقل و حمل پر حفاظت کے عوض بھتے بھی لیتی تھی۔
ماہر الاسد کی معروف شامی کاروباری شخصیت محمد صابر حمشو کے ساتھ قریبی کاروباری تعلقات تھے، جو تعمیرات، ٹیلی کمیونیکیشنز، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور سیاحت کے شعبوں میں کاروبار کرتا ہے۔ حمشو شام کے اہم ترین کاروباری شخصیات میں سے ایک ہے اور اس کا ملک کے تقریباً ہر اقتصادی شعبے میں حصہ تھا۔ وہ ماہر الاسد اور اس کی متعدد کمپنیوں کا فرنٹ مین رہا ہے۔
ماہر الاسد نے تیلسا انویسٹمنٹ گروپ کے ذریعے تعمیرات، توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی تھی۔ اس کے دیگر قریبی تعلقات میں قاطرجی خاندان شامل ہے، جو اپنے کاروبار اور ملیشیا کے ذریعے نظام کے زیر کنٹرول علاقوں میں تیل کے کنویں چلاتا تھا اور داعش کے ساتھ ایندھن کی تجارت کرنے میں سہولت فراہم کرتا تھا۔
پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آٹھویں بار غیر مستقل رکن بن گیا
رپورٹس کے مطابق شام کا مشہور مافیا گینگ خضر علی طاہر بھی اس نیٹ ورک کا حصہ تھا۔ طاہر کو چوتھی ڈویژن کی جانب سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اور لبنان کے ساتھ سرحدی راستوں پر فیس وصول کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
اس کے علاوہ ماہر عوامی املاک پر قبضے کا بھی ماہر تھا۔ درجنوں شامیوں کی گاڑیوں پر بھی اس نے قبضہ کر رکھا تھا۔ انقلاب کے بعد وہ ملک سے فرار ہوگیا لیکن ابھی تک اس کے ٹھکانے کا علم نہیں ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ وہ عراق بھاگ گیا ہے لیکن عراقی حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔