مودی سرکار کی “اگنی پتھ اسکیم” کیا ہے، اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارت کی مودی سرکار نے اپنی مسلح افواج کو زیادہ منظم اور بہتر بنانے کے نام پر ایک ایسی اسکیم متعارف کرائی ہے، جس کا اعلان ہوتے ہی پورے بھارت میں شدید رد عمل کا ایک بھونچال آگیا ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے اعلان کردہ اس اسکیم کا عنوان ہے اگنی پتھ، ہندی کی اس ترکیب کے معنی ہیں آگ کی راہگزر یا آگ کا راستہ، چنانچہ اس متنازع اسکیم نے آتے ہی پورے ملک میں ہر طرف شدید غم و غصے کی آگ لگا دی ہے، جس میں سینکڑوں سرکاری املاک اور ٹرینیں جل کر راکھ ہو چکی ہیں، پورا ملک چودہ جون سے شدید احتجاج کی لپیٹ میں ہے اور بھارتی نوجوان مودی سرکار کے اس منصوبے کیخلاف سخت اشتعال میں ہیں۔ آئیے جانتے ہیں اگنی پتھ اسکیم ہے کیا اور بھارتی نوجوانوں کو اس پر اعتراض کیا ہے؟

اگنی پتھ اسکیم:

مودی سرکار نے چودہ جون کا اس اسکیم کا اعلان کیا، یہ دراصل فوج میں بھرتی کا نیا طریق کار ہے، بھارتی حکومت کے نوٹی فکیشن کے مطابق اس اسکیم کے تحت سترہ سے اکیس سال تک کے نوجوان فوج میں ابتدائی طور پر چار سال کیلئے بھرتی کیے جائیں گے، چار سال تک تمام بھرتی ہونے والے نوجوانوں کو فوجی تربیت دینے کے بعد ان میں سے پچھتر فیصد کو ریٹائرڈ کر دیا جائے گا، جبکہ پچیس فیصد کو چار سالہ مدت کے اختتام پر فوج میں مستقل کر دیا جائے گا۔

اسکیم کی تفصیلات کے مطابق پہلے سال کی تنخواہ 28 سے 30 ہزار ماہانہ ہوگی، جبکہ چوتھے سال 40 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملے گی۔ ریٹائرڈ ہونے والے 75 فیصد نوجوانوں کو گیارہ سے بارہ لاکھ روپے دے کر گھر بھیج دیا جائے گا۔تاہم اس دوران اگر کسی نوجوان کی موت واقع ہو گئی تو اس کے خاندان کو ایک کروڑ روپے دیے جائیں گے۔اگنی پتھ اسکیم کے تربیت یافتہ نوجوان فوجی جوان کے بجائے اگنی ویر (آگ پر چلنے والے، خطرات سے کھیلنے والے، بہادر) کہلائیں گے۔

بھارتی حکومت کا ماننا ہے کہ اس اسکیم سے فوج کے اخراجات میں کمی آئے گی، فوج پر پنشنز کا بوجھ ختم ہوجائے گا، نیز تمام نوجوان فوجی تربیت گزریں گے، چار سال بعد ریٹائر ہو کر معاشرے میں وہ فوجی تربیت کا ہنر لیکر جائیں گے اور اس سے ہنر مند نوجوانوں کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ بھارتی حکومت اس کو ملکی ترقی اور فوج میں استحکام کیلئے انقلابی اسکیم قرار دے رہی ہے۔

اس اسکیم پر بھارت کی تینوں مسلح افواج بھی مودی سرکار کے ساتھ ہیں اور اسے فوج اور ملکی مفاد میں خیال کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس اسکیم کے خلاف شدید اشتعال سامنے آیا تو فوجی سربراہان نے اس پر شدید تنقید کی اور مظاہرین کو ملک دشمن تک قرار دیدیا۔

اعتراض کیا ہے؟

فوج میں بھرتی بھارت ہی نہیں پورے برصغیر سمیت دنیا کی بیشتر ترقی پذیر ملکوں میں یکساں طور پر روزگار کا اہم وسیلہ ہے۔ مناسب تنخواہ، مراعات، پنشن اور معاشرے میں باعزت مقام کے باعث عموما غریب اور نا خواندہ خاندانوں کی ترجیحی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو فوج میں شامل کروائیں تاکہ روزی، روزگار کا وسیلہ ہاتھ آئے۔ اسی مقصد کے تحت غریب اور بے روزگار نوجوان فوج میں بھرتی کا خواب دیکھتے ہیں، تاہم فوج میں بھرتی کے خواہش مند بھارت کے کروڑوں غریب نوجوانوں کو اس اسکیم پر سخت غصہ ہے، جس کی وجہ مختصر مدت میں یکمشت چند لاکھ روپے دے کر فوج سے فارغ کرنے کا فارمولا ہے۔

بھارتی نوجوانوں کا خیال ہے کہ اس اسکیم نے ان کے روزگار کے ایک باعزت ذریعہ کو متاثر کیا ہے، اب فوج میں ملازمت کسی کی ترجیح نہیں رہے گی، مستقل ملازمت کا کوٹا مختصر کرنے سے بڑے پیمانے پر بے روزگار نوجوان متاثر ہوں گے۔ اسکیم کے تحت ابتدائی بھرتی میں شامل پچھتر فیصد نوجوانوں کے سر پر چار سال میں ریٹائرڈ منٹ کی تلوار لٹکی رہے گی۔ نیز اس اسکیم کے تحت بھرتی ہونے والے فوجی نہیں کہلائیں گے تو بھلے فوجی کی جگہ کچھ بھی پر کشش اور خوبصورت نام دیا جائے، معاشرے میں انہیں فوج سے وابستگی کا احترام اور امتیاز حاصل نہیں ہوگا، چنانچہ فوج میں بھرتی کے خواہش مند لاکھوں نوجوان دیوانہ وار اس اسکیم کے خلاف میدان میں آنکلے ہیں اور انہوں نے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے ذریعہ اب تک بھارتی معیشت کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا دیا ہے۔

اگنی پت کے متعلق اہل دانش کی رائے:

بی جے پی کی سیاست اور آر ایس ایس کے کردار کے ناقد بھارت کے لبرل دانشور حلقے اور سیاستدان بھی نوجوانوں کی طرح اس اسکیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دراصل بی جے پی اور آر ایس ایس کا نظریاتی منصوبہ ہے، جس کے تحت بھارت کی سیکولر آئینی پوزیشن کا خاتمہ کرکے بھارت کو ہندو راشٹر (ہندو مملکت) بنانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کے تحت چار سال کی فوجی تربیت لیکر ریٹائرڈ ہونے والے نوجوان آر ایس ایس کا کیڈر بنیں گے اور آر ایس ایس نہ صرف ان عسکری تربیت یافتہ نوجوانوں کو اپنے نظریاتی مقاصد کیلئے استعمال کرے گی، بلکہ اس کے ذریعے وہ فوج پر بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرلے گی۔

چنانچہ بھارت کی تمام لبرل فورسز کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کانگریس، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج وادی پارٹی سمیت حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں مودی سرکار کی اس اسکیم کی مخالفت کر رہی ہیں اور مطالبہ کر رہی ہیں کہ ممکنہ طور پر بھارتی معاشرے میں خونین انتشار کا باعث بننے والے اس منصوبے کو فی الفور ختم کر دیا جائے۔

مسلمانوں کی رائے:

عام بے روزگار نوجوانوں اور دانشوروں کی طرح مسلمان بھی مودی سرکار کی اس اسکیم کی حمایت نہیں کرتے۔ مسلمان اس اسکیم کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف راست خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ پہلے ہی بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے آر ایس ایس اور بی جے پی کے غنڈہ اور انتہا پسند عناصر کے حوصلے پہلے سے بڑھ گئے ہیں اور وہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر تشدد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اب ہزاروں فوجی ٹریننگ یافتہ نوجوان بھی آر ایس ایس کو میسر آگئے تو آر ایس ایس کو اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے اور اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔

سوشل میڈیا پر اگنی پتھ:

اپوزیشن، لبرل حلقوں اور مسلمانوں کی یہ رائے خلاف حقیقت نہیں، کیونکہ سوشل میڈیا پر اگنی پتھ اسکیم کی پرزور حمایت کرنے والوں میں ہندو انتہا پسند اور آر ایس ایس کے حلقے پیش پیش ہیں اور وہ ہندوانہ تعصب کو جگاتے ہوئے اس اسکیم کو بھارت میں ہندو مذہب کے غلبے اور ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا اہم ذریعہ اور موقع قرار دے کر ہندو نوجوانوں کو اس اسکیم کو قبول کرنے اور اس کے تحت فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیبی مہمیں چلا رہے ہیں۔

جس سے مسلمانوں اور لبرل حلقوں کے اس خدشے کو تقویت مل رہی ہے کہ اگنی پتھ اسکیم در اصل آر ایس ایس کے بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے دیرینہ مقصد کی تکمیل کا حربہ ہے اور یہ فوج کو منظم کرنے کا نہیں بلکہ فوج پر آر ایس ایس اور ہندو انتہا پسندوں کی گرفت مضبوط کرنے کی اسکیم ہے۔

مودی سرکار بضد:

تمام تر احتجاج، اختلاف اور پر تشدد مظاہروں کے باوجود مودی سرکار اپنے فیصلے پر قائم ہے اور اس نے پورے ملک کے مطالبے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جولائی سے اس اسکیم پر عمل در آمد کا اعلان کر رکھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی سرکار اپنی ہٹ بچا لے جاتی ہے یا اس اسکیم کے مخالفین جیت جاتے ہیں؟ پہلی صورت میں بھارت میں اقلیتوں کا مستقبل انتہائی مخدوش اور حالات بڑی سنگین صورت اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ دوسری صورت میں آر ایس ایس کو اپنے خواب کی تکمیل میں وقتی طور پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

Related Posts