یوکرینی فوج کے جنگی جرائم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جمعہ (11 نومبر 2022) کی صبح سویرے یوکرین کی فوج نے روس کے قبضے سے اپنا اہم شہر خیرسون چھڑوا لیا۔ خیرسون پر یوکرینی فوج کے دوبارہ قبضے کے بعد یہاں کی آبادی کیلئے برا وقت ہے، کیونکہ خیر سون کی مقامی آبادی روس نژاد ہے اور یوکرین روس تنازع میں کریملن کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ جاننے والے کہتے ہیں کہ خیرسون پر یوکرینی فوج کے اس بڑے حملے کو امریکی اور نیٹو افواج کی حمایت حاصل تھی۔

خیرسون میں شکست کے بعد روس نے دریائے ڈینیپر کے مغربی کنارے سے اپنے فوجیوں کی واپسی مکمل کر لی۔ روسی خبر رساں ایجنسیوں نے وزارت دفاع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ماسکو کے وقت صبح 5 بجے (02:00 GMT) تک انخلاء مکمل ہو گیا اور ایک بھی فوجی یونٹ خیرسون میں نہیں رہا۔

اس اطلاع کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسے ویڈیو کلپس کی بھرمار ہوگئی ہے جن میں یوکرین کے حکومتی اہلکار اس شہر کے مرکزی چوکوں پر خوشی اور جشن مناتے نظر آ رہے ہیں۔

یوکرین کی فتح اور یوکرینی اہلکاروں کا جشن فتح اپنی جگہ تاہم المیہ یہ ہے کہ یہ فتح خیر سون کی مقامی روس نواز آبادی کیلئے ایک طرح سے موت کا پیغام لائی ہے۔

اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ خیرسون کے روسی شہری روسی افواج کی شکست کی قیمت اپنی جانوں سے ادا کر رہے ہیں۔ جو انتہائی افسوسناک بات ہے۔ کس قدر افسوسناک معاملہ ہے کہ مختلف سیاسی نظریات کے لیے اپنے ہی وطن کے شہریوں کو ظلم و وحشت کا نشانہ بنا لیا جائے۔ یقیناً یہ عمل انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے۔ ماسکو نے بارہا یوکرین کے مختلف روس نواز حصوں میں کریملن کی طرف جھکاؤ رکھنے والے شہریوں کے خلاف یوکرینی فوج کی جانب سے تشدد کی نشاندہی کی ہے۔

ادھر کریملن کے ترجمان نے باوجود شکست کے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ہم پورے خیرسون خطے کو روس کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہ روسی فیڈریشن کا حصہ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ نیز ماسکو کو یوکرین پر فوج کشی اور خیرسون پر قبضے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔

یہ عام سی بات ہے کہ متحارب فریق زمین کے لیے اپنی لڑائیوں میں جیتتے اور ہارتے ہیں لیکن اپنے سے مختلف سیاسی وابستگی رکھنے والے سولینز پر نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے موقع پر ریاستی ادارے تمام شہریوں کو ان کے سیاسی، نسلی اور مذہبی رجحانات سے بالاتر ہو کر تحفظ فراہم کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت یوکرین میں ایسا نہیں ہو رہا۔ جہاں روس نوازوں کے خلاف جنگی جرائم کی اطلاع ہے۔

خیرسون کی طرح ہی خارکیف سے بھی یوکرینی فوج کی جانب سے یہاں کے مقامی روسی نژاد لوگوں پر تشدد کی اطلاعات آ رہی ہیں، چنانچہ مختلف اطلاعات کے مطابق یوکرین کی سیکیورٹی فورسز نے مبینہ طور پر روس کے ساتھ تعاون کے الزام میں خارکیف میں روسی نسل کے عام لوگوں پر بڑے پیمانے پر جبر کیا ہے۔

کیف کی جانب سے خارکیف کے مختلف علاقوں پر کنٹرول قائم کرنے کے بعد یوکرین کی سیکورٹی فورسز نے سب سے پہلے تطہیری آپریشن کے نام پر روس نواز سویلنز کو چن چن کر الگ کرنے کا آغاز کیا اور مقامی باشندوں کو باقاعدہ شناخت کرکے حراست میں لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خارکیف میں بھی یوکرینی فوج کی واپسی کے بعد یہاں کے روسی نسل کے شہریوں کی زندگی شدید خطرے میں ہے۔

مزید برآں کیف نے روسی پاسپورٹ حاصل کرنے والے شہریوں کے خلاف فوجداری مقدمہ چلانے کا آغاز کیا ہے۔ ایسے تمام افراد کو 10 سے 15 سال قید کی سزا دی جا رہی ہے جو روسی پاسپورٹ کے حامل ہوتے ہیں، جو یقینا ایک سخت امتیازی اور قابل مذمت عمل ہے۔

 یہی نہیں یوکرینی حکام عوام کے ذاتی سوشل اکاؤنٹس پر بھی نگاہ رکھتے ہیں اور ‘مشتبہ’ افراد کے ٹھکانوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں۔ اس اقدام کے نتیجے میں سیکڑوں شہری تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں، اور ان میں سے بہت سے حراستی سیلوں میں بغیر کسی مقدمے کے قید ہیں۔

یہ اطلاعات بھی برابر موصول ہو رہی ہیں کہ یوکرین کے کچھ فوجیوں نے خار کیف کی روسی نژاد آبادی میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی ہے۔ ان علاقوں میں یوکرینی فوج کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروہوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے جن کے ہاتھوں مقامی لوگوں کی املاک کو ہتھیانے کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ خارکیف اور خیرسون کے روسی نژاد شہریوں نے شکایت کی ہے کہ آزادی دلانے کے نام پر یوکرینی نسل پرستوں نے ان کا سب کچھ چھین لیا ہے، یہاں تک کہ ذاتی گاڑیاں، گھریلو سامان او کھانے پینے کی اشیاء تک بھی نہیں بخشا جاتا۔ مغربی میڈیا کے زیر اثر دنیا بھر کا میڈیا روسی مظالم کو تو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے مگر یوکرینی فوج کے مظالم اور یہ مظالم سہنے والے روسی نژاد یوکرینی باشندوں کے سنگین مسائل کو کہیں جگہ نہیں مل رہی۔

Related Posts