عالمی یوم اطفال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہر سال پاکستان سمیت ساری دنیا میں بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کی قرار داد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 14 دسمبر 1954ء کو پاس کی تھی جبکہ سب سے پہلے ڈنمارک کی ایک این جی او نے بچوں کا دن منانے کی روایت قائم کی۔اس دن کی مناسبت سے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے زیر اہتمام سیمینار اور واکس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

یوں تو پاکستان میں بہت سے سماجی ادارے ان بچوں کو تحفظ دیتے ہیں لیکن پاکستان میں صرف ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت ہی اب تک ہزار وں بچوں کو گود دیا گیا۔

آج بھی پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کی فٹ پاتھوں پر رات کو سوتے بچے ، بھیک مانگتے ، کچرا چنتے ، سڑکوں پر پھول بیچتے ، کاروں کو صاف کرتے ، گلیوں میں غبارے بیچتے ، جوتوں پر پالش کرتے اور گیراجوں میں کام کرتے بچے معاشرے کیلئے سوالیہ نشان ہیں کہ ان کے حقوق، تعلیم و تربیت، صحت اور سیر و تفریح کے لئے کیا اقدام کئے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں : پولیو کا عالمی دن: قومی اسٹار کرکٹر وسیم اکرم انسدادِ پولیو کے سفیر بن گئے

ایک تخمینے کے مطابق ترقی پذیر ممالک کے 14 فیصد یعنی تیس کروڑ بچوں کو بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے،17سے 18سال تک کے بچے تقریباً18 فیصد بچے کبھی اسکول نہیں گئے۔ پچاس کروڑ بچوں کو سینی ٹیشن کی سہولت میسرنہیں ہے جبکہ 40کروڑ بچوں کو صاف پانی نہیں ملتا۔ غیر محفوظ پانی کے استعمال اور صفائی ستھرائی کی سہولیات کی عدم دستیابی کے نتیجے میں روزانہ ہزاروں بچے خطرناک بیماریوں کا شکار ہوکر جان سے چلے جاتے ہیں۔

15کروڑ کے قریب بچے محنت مزدوری کرتے ہیں یعنی چائلڈ لیبر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اعداد و شمار میں زیادہ تر بچے برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھتے ہیں۔ بنیادی سہولیات سے محروم یہ بچے بعض اوقات جرائم پیشہ گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور جرائم اور منشیات کے عادی بن جاتے ہیں۔

وطن عزیز پاکستان میں اس وقت غریب، یتیم اور لاوارث بچوں کی پرورش اور کفالت کے کئی ادارے موجود ہیں، لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ غریب اور بے سہارہ بچوں کیلئے تعلیم و تربیت کے اہتمام کو یقینی بنایا جائےاورحکومت مخیر حضرات کے تعاون سے ان اداروں کی ترجیحی بنیادوں پر مدد کرے تاکہ ان اداروں میں زیرِ کفالت بچے معاشرے کے کار آمد اور فعال شہری بن سکیں۔

یہ بھی پڑھیں :اقوامِ متحدہ امن کے عالمی دن کو کشمیری عوام کے نام کرے،مشعال ملک کا مطالبہ

حکومت بچوں کی صحت کے حوالے سے عالمی اداروں کے تعاون سے کئی منصوبوں پر کام کررہی ہے لیکن قابلِ عمل یہ امر ہے کہ اس امداد کو نئی عمارتیں بنانے سے کہیں بہتر ہے کہ جو منصوبے جاری ہیں ان پر تیزی سے کام کیا جائے تاکہ وہ ادارے اپنی تکمیل کو پہنچ کر پوری طرح بچوں کی صحت کے حوالے سے کام کرنا شروع کردیںاورساتھ ہی ساتھ یتیم وبے سہارہ بچوں کو گود لینے کا قانونی طریقہ کار بنایا جائے اور نوزائیدہ بچوں کو کچرا کنڈیوں میں پھینکنے والوں کے خلاف بھی موثر قانون سازی کی جائے ۔

Related Posts