ٹرمپ کی وزیرعظم عمران خان سے ملاقات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ گذشتہ سال جولائی میں وزیر اعظم کے واشنگٹن کے دورے کے بعد سے دونوں رہنماؤں کے درمیان غیر رسمی طور پر ہونے والی یہ تیسری ملاقات تھی۔

دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی جنگ کے لئے طویل عرصے سے قائم سیاسی حل کے لئے کوششوں کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے ساتھ یہ ٹرمپ کے صدارتی عہدے کی مدت کا آخری سال ہے ۔ افغان طالبان سے امن معاہدے کے لیے ٹرمپ کو یقینی طور پر پاکستان کی ضرورت ہے جسے وہ انتخابات کے دوران اپنی کامیابیوں میں گنواسکیں گے۔

ملاقات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کودوست کہتے ہوئے کہا کہ وہ ان سے مل کر خوش ہیں اور دعویٰ کیا کہ پاکستان اور امریکا پہلے سے کہی زیادہ قریب ہیں۔ دونوں رہنماؤں سے پاک امریکا تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ افغان امن معاہدے میں پاکستان کے اہم کردار سے پاک امریکا تعلقات میں بتدریج بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی پر ایک بار پھر امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی، ٹرمپ نےوعدہ کیاکہ وہ اس معاملےکو قریب سے دیکھ رہے ہیں اوراس پر بھارتی وزیر اعظم مودی سے بات کریں گے۔ ٹرمپ اگلے ماہ بطور صدر بھارت کا پہلا دورہ کرنے جارہے ہیں ۔ تاہم اس بات میں شکوک پائے جاتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے پر عمل کریں گے مسئلہ کشمیر پر مودی سے بات کریں گے کیونکہ بھارت مسئلہ کشمیر پر کسی تیسری پارٹی کی ثالثی کو ماننے سے انکار کرچکاہے۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی شکوہ کیا کہ آیا مودی ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش قبول کریں گے، بین الاقوامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کاکہنا تھا کہ ہندوستان اس وقت انتہا پسند نظریے پر عمل پیرا ہے جس کہ وجہ سے خطے میں مسلح تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتوں خصوصاً امریکا اور اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر مداخلت نہ کی تو دو ایٹمی قوتوں میں تصادم ہوا تو اس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتناپڑے گا۔

ٹرمپ کی وعدے بلاشبہ پاکستان کے لیے حوصلہ افزا ہیں لیکن امریکی عہدے دار چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ امریکی سفارت کار ایلس ویلز کے تبصروں سے کیا جاسکتا ہے جنہوں نےسی پیک پر یہ کہتے ہوئے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستان چین کا مقروض ہوجائے اور منصوبے کے لیے بلیک لسٹ کمپنیوں کو معاہدہ جاری کیا گیا تھا۔
دوسری جانب چین امریکی بیانات کو مسترد کرتا آیا ہے ۔ امریکا نے چین کے ساتھ مختلف تجارتی معاہدے کیے اور پاکستان میں سی پیک منصوبوں کو روکنے کے لیے کوشاں ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ٹرمپ کے ان ریمارکس کا خیرمقدم کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکا کشمیر کے تنازعہ کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے جو کوئی دوسرا ملک نہیں کرسکتا۔ پاکستان افغان امن عمل میں امریکا کی مدد کرتا آیا ہے شائد اسی لیے امریکا پاکستان کی حمایت کررہا ہے۔

Related Posts