اپنے علاج کیلئے کسی سے قرض نہیں لینا چاہتا، بلڈ کینسر میں مبتلا صدیقی باس کی درد بھری کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اپنے علاج کیلئے کسی سے قرض نہیں لینا چاہتا، کینسر میں مبتلا صدیقی باس کی درد بھری کہانی
اپنے علاج کیلئے کسی سے قرض نہیں لینا چاہتا، کینسر میں مبتلا صدیقی باس کی درد بھری کہانی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف ٹک ٹاکر صدیق باس کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہیں، 2 ماہ قبل انہوں نے شاہ فیصل پر ایک ریسٹونٹ کا آغاز کیا تھا جس کو انہوں نے اب بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایم ایم نیوز نے صدیقی باس سے اُن کے ریسٹورنٹ پر ملاقات کی جس کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

اپنی صحت کے بارے میں بتاتے ہوئے صدیقی باس نے کہا کہ میں اپنی صحت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ ابھی ٹریٹمنٹ کا پہلا فیز چل رہا ہے اور جب کینسر کا پہلا فیز ختم ہوتا ہے تو پھر ٹیسٹ ہوتے ہیں جس کے بعد پتہ چلے گا کہ کیسی صحت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلڈ کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے، اس میں صرف دوائیاں دی جاتی ہیں جن کی مدد سے صرف اس کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے لیکن ختم نہیں کیا جاسکتا۔

اپنے ریسٹورنٹ کو بند کرنے کے حوالے سے صدیقی باس نے کہا کہ کینسر کا علاج مہنگا ہوتا ہے جس کیلئے کافی پیسے درکار ہوتے ہیں، میں نہیں چاہتا کہ اپنے علاج کیلئے کسی سے اُدھار لوں اسی لئے میں نے اپنے ریسٹورنٹ کو بیچنے کا نہیں بلکہ اسے کرایے پر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ کوئی میرے ریسٹورنٹ کو سامان سمیت کرایے پر لے تاکہ اس کا کرایہ میرے پاس آتا رہے جس کیلئے میری بہت سے لوگوں کے ساتھ بات چیت بھی چل رہی ہے۔

ایم ایم نیوز نے جب اُن سے طبیعت میں بہتری کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز بہت زیادہ پُرامید ہیں اور یہ اُن کا کام بھی ہے۔ دنیا بھر میں جتنے بھی ڈاکٹرز ہیں وہ ہمیشہ آپ کو بہت بہترین امید دیتے ہیں، یہ دنیا کا اصول ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے بھی پاس کسی کام کیلئے جاتا ہے وہ شخص چاہے وہ کام کر نہیں سکتا ہو لیکن اسے امید ضروردلاتا ہے اور یہی ڈاکٹرز کے ساتھ بھی ہے وہ اپنی کوشش کررہے ہیں لیکن آخری زات تو اللہ کی ہے۔

آخر میں اپنے مداحوں کیلئے پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھ سے ایسے ہی پیار کرتے رہیں اور میری صحت یابی کی دعا کریں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرا بند ہوتا ہوا کاروبار نہیں دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ میں کیا نیا شروع کرنے والا ہوں۔

اپنے اوپر گزری کہانی کو الفاظ کی صورت میں بیان کرتے ہوئے صدیقی باس نے ایک شعر پڑھا

میری الماری کو کھنگالو گے تو کیا مل سکتا ہے

کچھ تصویریں درد بھری کہ جن سے کلیجہ ہل سکتا ہے

میرے سکون کو چھین کے کہتے ہو کہ خوش رہو

اب تیزاب شاخوں پر ڈالو تو کیا پھول کھل سکتے ہیں۔

Related Posts