ماہرِ نفسیات کے پاس جانے میں لوگ آج بھی شرمندگی کیوں محسوس کرتے ہیں؟ڈاکٹر طاہرہ انس کی ایم ایم نیوز کیساتھ خصوصی گفتگو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ماہرِ نفسیات کے پاس جانے میں لوگ آج بھی شرمندگی کیوں محسوس کرتے ہیں؟ڈاکٹر طاہرہ انس کی ایم ایم نیوز کیساتھ خصوصی گفتگو
ماہرِ نفسیات کے پاس جانے میں لوگ آج بھی شرمندگی کیوں محسوس کرتے ہیں؟ڈاکٹر طاہرہ انس کی ایم ایم نیوز کیساتھ خصوصی گفتگو

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں لوگ عام طور پر نفسیاتی بیماریوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، وہ اس پر بہت کم بات کرتے ہیں، وہ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم کسی کو اس حوالے سے بتائیں گے تو وہ ہمیں پاگل سمجھے گا۔

جب کہ حقیقت اس کے مختلف ہے، انسان چاہے تو اپنے نفسیاتی مسئلے یا پھر ذہنی الجھن کو کسی کے ساتھ شیئر کرسکتا ہے اور اس کیلئے کلینیکل سائیکلوجسٹ بہترین ہیں، جن سے آپ کو یہ خوف بھی نہیں ہوتا کہ وہ آپ کی ذہنی الجھن یا مسئلے کو کسی دوسرے تک پہنچادیں گے بلکہ ایسے ماہرِ نفسیات آپ کو اِس ذہنی الجھن سے نکلنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔

ایم ایم نیوز نے اسی حوالے سے گفتگو کرنے کیلئے ڈاکٹر طاہرہ انس کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جس کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ کے خیال میں کلینیکل سائیکلوجسٹ اور تھراپسٹ میں کیا فرق ہے؟

طاہرہ انس: دونوں تقریبا ایک ہی ہوتی ہیں، کلینیکل سائیکلوجسٹ صرف مسئلوں کو سنتا ہے جبکہ ایک تھراپسٹ مسئلوں کو سننے کے بعد مریض کو مطمئن بھی کرتا ہے۔

ایم ایم نیوز: جب آپ کے پاس مریض آتے ہیں تو آپ کو کتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

طاہرہ انس: ہمیں کوئی خاص مشکل نہیں ہوتی کیونکہ لوگ عام طور پر کسی سے بات کرنا چاہتے ہیں، کسی ایسے شخص کو اپنا مسئلہ بتانا چاہتے ہیں جو اُن کی بات مکمل سن سکے، اسی لئے جب کوئی مریض ہمارے پاس آتا ہے تو کچھ سیشنز کے بعد ہی وہ ہمیں اپنا مسئلہ بتادیتا ہے۔

ایم ایم نیوز: ہمارے معاشرے میں سائیکلوجسٹ کے پاس جانے میں لوگ بہت زیادہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

طاہرہ انس: جی ہاں لوگوں میں یہ تاثر بہت زیادہ پایا جاتا ہے، جب بھی زیادہ تر لوگ ہمارے پاس آتے ہیں تو وہ یہی چاہتے ہیں کہ کسی کو اس بارے میں نہیں پتہ چلے کیونکہ ہمارے معاشرے میں اسے بہت بُرا سمجھا جاتا ہے جبکہ ضروری نہیں کہ لوگ صرف پاگل ہوں تو ہمارے پاس آئیں بلکہ وہ اپنی کیریئر کاؤنسلنگ اور اپنی ازدواجی زندگی کے مسائل کے حل کیلئے بھی ہمارے پاس آسکتے ہیں، اس لئے اس تاثر کو معاشرے سے بالکل ختم ہونا چاہیے۔

ایم ایم نیوز: کیا آپ پِری ویڈنگ کاؤنسلنگ بھی کرتی ہیں؟

طاہرہ انس: جی ہاں اور میرے خیال یہ بہت ضروری بھی ہے کیونکہ ہمارے یہاں پری ویڈنگ شوٹنگز تو ہوتی ہیں لیکن کاؤنسلنگ نہیں، اس کاؤنسلنگ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ نے کیسے اپنے نئے رشتے کو لے کر چلنا ہے، جو کہ طلاق کے اعداد وشمار کو کم کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔

ایم ایم نیوز: کیا کبھی آپ کو ایسا لگا کہ تھراپی کی ضرورت آپ کے مریض کو نہیں بلکہ اُس کے اردگرد کے لوگوں کو ہے؟

طاہرہ انس: بہت دفعہ ایسا لگتا ہے کہ مریض سے زیادہ اُس کے اردگرد کے لوگوں کو تھراپی کی ضرورت ہے لیکن افسوس ہم صرف مریض کی ہی تھراپی کرسکتے ہیں، ایسے کیسز میں ہم لاچار ہوجاتے ہیں کیونکہ مریض کی جتنی بھی کاؤنسلنگ کرلیں اُس کے اردگرد کے لوگ اُس کو ٹھیک ہونے نہیں دیتے۔

ایم ایم نیوز: آپ کے خیال میں، آپ کے پروفیشن کے حوالے سے لوگوں کی سوچ میں کتنی تبدیلی آئی ہے؟

طاہرہ انس: میرے خیال میں لوگوں کی سوچ کافی تبدیل ہوئی ہے، آج سے اگر چند سال پہلے دیکھوں تو لوگ اس چیز کو بالکل نہیں مانتے تھے کہ کسی سائیکلوجسٹ کے پاس ہمیں جانا چاہیے، خاص طور پر مڈل کلاس لوگ تو اسے بہت ہی بُرا سمجھتے تھے۔

لیکن اب میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ معاشرہ اس حوالے سے کافی حد تک تبدیل ہورہا ہے لوگ اب اس چیز کو مانتے ہیں کہ ہمیں کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے، اس لئے ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔

ایم ایم نیوز: کیا آپ کو شروع سے ہی سائیکلوجسٹ بننے کا شوق تھا؟

طاہرہ انس: نہیں مجھے سائیکولوجسٹ بننے کا کوئی شوق نہیں تھا، میں اے سی سی اے کرنا چاہتی تھی لیکن جس وقت میں انٹر کرکے فارغ ہوئی تھی، اس وقت اس شعبے کو لڑکیوں کیلئے مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ پھر میں نے سائیکولوجی پڑھی اور پھر بعد میں اس میں میرا شوق پیدا ہوگیا۔

ایم ایم نیوزآپ کے سیشنز کتنے گھنٹے کے ہوتے ہیں؟

طاہرہ انس: عموما تو سیشن 1 گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ہونا چاہیے لیکن بعض مریض ایسے ہوتے ہیں جن کا سیشن کبھی کبھار 90 منٹ تک بھی چلا جاتا ہے تو یہ کافی حد تک مریض کے اوپر بھی منحصر ہوتا ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ لسنگنز سولز کی اہم ممبر ہیں، کچھ اُس کے بارے میں بتائیں؟

طاہرہ انس: اس کو شروع کرنے کا خیال ایسے آیا کہ زیادہ تر لوگ جو ہیں وہ سائیکلوجسٹ کی فیس برداشت نہیں کرسکتے، دوسرا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے جس میں آپ کسی بھی سائیکلوجسٹ کے پاس جاسکتے ہیں، تیسری بات آپ کو سائیکلوجسٹ کے پاس خود جانا پڑتا ہے کسی قسم کی آن لائن سہولت نہیں ہے۔

یہی وہ باتیں تھیں جن کو ذہن میں رکھ کر ہم نے لسننگز سولز کو شروع کیا، اُس پر 24 گھنٹے آن لائن کاؤنسلننگ کی سہولت موجود ہے اور اس کی کوئی فیس بھی نہیں ہوتی، تو اس سے لوگوں کو بہت فائدہ ہوسکتا ہے، وہ کہیں پر بھی ہوں ہمارے اس پلیٹ فارم کی مدد سے کاؤنسلنگ حاصل کرسکتے ہیں۔

ایم ایم نیوز: آپ ہیلنگ سولز کی بھی ممبر ہیں، اس کے بارے میں بھی کچھ بتائیں؟

طاہرہ انس: یہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں ہم تقریبا 90 ممبرز ہیں جو کہ ایسے شلٹر ہومز، اولڈ ہوم اور دیگر ایسی جگاؤں پر جاکر وہاں پر رہنے والے لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں کیونکہ ایسی جگاؤں کے لوگوں کے پاس کچھ کرنے کیلئے نہیں ہے، وہ صرف اپنا وقت گزاررہے ہیں۔

ہم اِن لوگوں کے پاس جاتے ہیں اُن کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں، کھلیتے ہیں اور اُن کو تفریح کیلئے لے کر جاتے ہیں جس سے یہ لوگ بہت زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں۔

Related Posts