سندھ کا بجٹ اور حکومتی دعوے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سندھ حکومت نے 1477 ارب کا ٹیکس فری بجٹ پیش کردیا گیا، سندھ کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں وفاق کے مقابلے دوگنا یعنی 20 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا جبکہ مزدور کی اجرت بھی 25 ہزار کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔سندھ حکومت نے جائیداد کی خریدو فروخت ، کرائے نامے اور پاور آف اٹارنی کیلئے اسٹیمپ ڈیوٹی میں بھی کمی کردی ہے جبکہ غریبوں کیلئے 30 ارب 90 کروڑ کا خصوصی پیکیج بھی رکھا گیا ہے۔

گزشتہ روز پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ہم آئندہ مالی سال 22-2021میں 30ہزار سے زائد نوکریاں دیں گے جبکہ وفاق کی جانب سے 147 ارب روپے اب ملنے ہیں مگر لگتا نہیں کہ یہ ملیں گے، وزیراعلیٰ سندھ نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم نے مجھے کہا ہم سے پمز نہیں چلتا ہے۔ہم ان کے اسپتال کیسے چلائیں گے ۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاق آئین کے تحت سندھ حکومت کو این ایف سی ایوارڈ کے پیسے دیتا ہے،سندھ میں ترقی نہیں ہوئی توپورے ملک سے لوگ علاج کروانے یہاں کیوں آتے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان کی عزت کرتا ہوں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، چیف جسٹس میرے ساتھ تھر چل کر دیکھ لیں، وہ کھلے دماغ سے دیکھیں گے تو انہیں فرق نظر آجائے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ چیف جسٹس آف پاکستان کے کراچی کے حوالے سے سخت ریمارکس پر نالاں دکھائی دیتے ہیں،مراد علی شاہ نے گزشتہ روز پوسٹ پریس کانفرنس میں بتایا کہ کراچی کےلئے ایک ہزار بہتر پراجیکٹس چل رہے ہیں تاہم انہوں نے ان منصوبوں کی تفصیلات نہیں بتائیں۔

سندھ حکومت نے آئندہ مالی سال میں صوبے کے ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 329اعشاریہ 033 ارب روپے لگایا ہے جبکہ صوبائی حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں کراچی کی ترقی کے لیے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے 288ارب 90 کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے۔

سندھ حکومت نے گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے براؤن لائن ،اورنج لائن، ریڈلائن اور بلو لائن کے منصوبوں کیلئے رقم مختص کی لیکن کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا۔وفاقی حکومت کی تو سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں منظور کئے گئے دو منصوبے گزشتہ مالی سال میں مکمل ہوئے لیکن2016 سے شروع ہونے والا گرین لائن منصوبہ تاحال غیر فعال ہے۔

کراچی کو پانی کی فراہمی کے لیے کے فور منصوبہ بھی 17 ارب روپے خرچ ہونے کے باوجودمکمل نہیں ہوسکاجبکہ سیوریج کے پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ تک پہنچانے کیلئے ایس تھری منصوبہ گزشتہ سات سال سے جاری ہے جو اب تک مکمل نہیں ہوا۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی میں پانی کی فراہمی و نکاسی، کچرا، انفرااسٹرکچر ، ٹرانسپورٹ اور دیگر اہم امور پر خصوصی توجہ دی جائے اور محض اعداد وشمار کے بجائے حقیقی طور پر عوام کے مسائل کے حل کرکے شہریوں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔

Related Posts