وزیر اعظم شہباز شریف پر کتنے مقدمات قائم؟ کون کون سا جرم ثابت ہوگیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے 2 روز قبل ملک کے نئے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا جبکہ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں بطور اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف مختلف مقدمات کی سماعت کیلئے عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ پی ٹی آئی نے ان کے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات بھی اٹھائے تھے جو مسترد کردیئے گئے۔

پی ٹی آئی حکومت کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے شہباز شریف کو متعدد مواقع پر الزامات کا نشانہ بنایا۔ سوال یہ ہے کہ شہباز شریف پر کتنے مقدمات قائم ہیں اور ان پر اب تک کون کون سا جرم ثابت ہوچکا ہے۔

طیارہ ہائی جیکنگ اور غداری کے مقدمات

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں طیارہ ہائی جیکنگ اور غداری کے مقدمات قائم کیے گئے تھے، تاہم جرم ثابت نہ ہونے پر دونوں بھائیوں کو تاحال سزا نہ مل سکی۔ 

سبزہ زار ماورائے عدالت قتل کیس

آج سے کم و بیش 15 سال قبل 2007ء میں شریف خاندان وطن واپس آیا۔ 1998ء میں جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو لاہور کے علاقے سبزہ زار میں ماورائے عدالت قتل کا ایک واقعہ پیش آیا جس کا مقدمہ شہباز شریف کے خلاف درج کیا گیا۔

الزام یہ عائد کیا گیا کہ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے پولیس مقابلے کا حکم دیا اور چند افراد مبینہ پولیس مقابلے میں ماورائے عدالت قتل ہوئے۔ 2003ء میں انسدادِ دہشت گردی عدالت نے شہباز شریف کو نوٹس جاری کردیا۔

حیرت انگیز طور پر 2004 میں شہباز شریف نے عدالت میں پیشی کیلئے پاکستان واپسی کی کوشش کی تاہم انہیں ائیر پورٹ سے واپس روانہ کردیا گیا۔

صاف پانی کرپشن اور آشیانہ ہاؤسنگ 

اکتوبر 2018ء میں ملک کے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم نے صاف پانی کرپشن اور آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کے باعث گرفتار کر لیا۔ پنجاب حکومت کی صاف پانی کمپنی میں مالی بے ضابطگیوں کا الزام تھا۔

پانی اسکینڈل کیس میں نیب حکام کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے من پسند کمپنیوں کو ٹھیکوں سے نوازا۔ سیاسی اثر رسوخ استعمال کیا اور قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا۔ ایسے ہی الزامات آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں بھی عائد کیے گئے۔ 

اختیارات سے تجاوز

آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں اکتوبر 2018ء میں شہباز شریف کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا گیا۔ کیس میں عائد کیے گئے الزامات کے مطابق شہباز شریف نے پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اختیارات خود رکھ لیے تھے۔

مزید الزامات یہ تھے کہ پی ایل ڈی سی کو غیر قانونی طور پر کہا گیا کہ آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم ایل ڈی اے کو دے دی جائے جبکہ ان کے قریبی ساتھی احد چیمہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ تھے اور شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ کے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ 

رمضان شوگر ملز کیس

کم و بیش 2 سال قبل احتساب عدالت لاہور نے رمضان شوگر ملز ضمنی ریفرنس میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز پر فردِ جرم عائد کردی، 27 اگست 2020 کو گواہ بھی طلب کر لیے گئے۔

وکیل امجد پرویز نے اپنے مؤکل شہباز شریف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف پر رمضان شوگر ملز کیلئے جو گندا نالہ بنانے کا الزام اور فردِ جرم عائد کرنا بلا جواز ہے۔ پراجیکٹ کی منظوری اسمبلی اور صوبائی کابینہ نے دی تھی۔

پراسیکیوٹر (نیب) نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز رمضان شوگر ملز کے سربراہ ہیں۔ قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔ 36 کروڑ سے مقامی آبادیوں کے نام پر نالہ تعمیر ہوا۔ فنڈز رمضان شوگر ملز کیلئے استعمال کیے گئے، یہ اختیارات سے تجاوز ہے۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس 

سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے مئی 2021 میں اعلان کیا کہ پی ٹی آئی حکومت شہباز شریف سمیت شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے کی دوبارہ تفتیش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ شریف خاندان کی بدعنوانی کا سب سے اہم سرا ہے۔

فواد چوہدری کے مطابق نواز شریف اور شہباز شریف حدیبیہ کیس کے مرکزی ملزم ہیں۔ ماضی میں حدیبیہ ملز ریفرنس دائر کرنے کی منظوری 2000ء میں چیئرمین نیب جنرل سید محمد امجد نے دی جس کی بنیاد سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیان پر رکھی گئی۔

اسحاق ڈار نے بیان دیا تھا کہ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے شریف خاندان کیلئے 1 کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے قریب رقم مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کی گئی۔ تاہم بعد میں سابق وزیر خزانہ اپنے اس بیان سے پیچھے ہٹ گئے اور کہا کہ میں نے بیان دباؤ میں آکر دیا۔

پی ٹی آئی حکومت شہباز شریف سمیت شریف خاندان کے دیگر اراکین کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کیس ثابت کرنے اور سزا دلوانے میں ناکام رہی۔ سپریم کورٹ نے اکتوبر 2018 میں نیب کی مقدمہ کھولنے کی درخواست رد کرنے پر نظر ثانی کی درخواست بھی مسترد کردی۔

آمدن سے زائد اثاثہ جات

موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف سمیت شریف خاندان پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے آمدن سے زائد اثاثہ جات بنا رکھے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے جون 2020 میں نیب کو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔

لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کر لی۔ اگست 2020 میں نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، 2 بیٹوں اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف 7 ارب 32 کروڑ کی منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس دائر کیا۔

ریفرنس میں الزام یہ عائد کیا گیا کہ شہباز شریف اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے اثاثوں سے فوائد حاصل کر رہے ہیں جن کے پاس ایسے اثاثوں کیلئے وسائل دستیاب نہیں تھے۔ شریف خاندان اثاثوں کیلئے رقوم کے ذرائع نہیں بتا سکا۔

موجودہ صورتحال 

احتساب عدالت لاہور نے گزشتہ روز (13 اپریل 2022 کو) منی لانڈرنگ کیس میں وزیر اعظم شہباز شریف کی حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواست منظور کر لی۔ فردِ جرم عائد کرنے کا عمل ملتوی کردیا گیا۔ شہباز شریف کے خلاف دائر تمام مقدمات تاحال ختم نہیں ہوسکے۔

ملک کے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف متعدد مواقع پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ مجھ پر ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوسکی۔ نیب نے مجھ پر بے بنیاد الزامات لگائے۔

Related Posts