سن 1999ء میں ہونے والی کارگل جنگ اور نشانِ حیدر پانے والے شہداء کا کردار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سن 1999ء میں ہونے والی کارگل جنگ اور نشانِ حیدر پانے والے شہداء کا کردار
سن 1999ء میں ہونے والی کارگل جنگ اور نشانِ حیدر پانے والے شہداء کا کردار

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مقبوضہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین ایک سلگتا ہوا دیرینہ مسئلہ ہے جس کا حل انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس مسئلے کے باعث دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتیں ہمیشہ جنگ کے دہانے پر رہتی ہیں۔

سن 1999ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی طاقت بننے کے بعد جو پہلی جنگ ہوئی اُسے کارگل جنگ کہا جاتا ہے جسے جیتنے کا دعویٰ پاکستان اور بھارت دونوں نے کیا، لیکن وہ جنگ ہی کیا جس میں کوئی جیت جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ دو افراد کے درمیان ہونے والی لڑائی اور دو ممالک کے مابین جنگ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جب دو ممالک لڑتے ہیں تو جانی و مالی نقصان دونوں طرف ہوتا ہے۔

کارگل کی جنگ میں کیا ہوا؟

تکنیکی اعتبار سے لائن آف کنٹرول پر لڑی گئی کارگل جنگ کو دو ممالک کے مابین ہونے والی محدود جنگ قرار دیا جاسکتا ہے جس کے دوران پاکستان نے بھارت کے 3 جنگی جہازوں کو زمیں بوس کردیا۔

یہاں بھارتی فوج کی حواس باختگی اور پاک فوج کا خوف اُس وقت کھل کر سامنے آگیا جب انہوں نے اپنے ہی 700 سے زائد فوجیوں کو ہلاک کردیا جسے بھارت کا غیر معمولی قومی  نقصان قرار دیاجاسکتا ہے۔

دوسری طرف پاک فوج بھارت کو مزہ چکھانے کیلئے تیار تھی۔ پاک فوج بھارت کے کچھ علاقوں پر قبضہ بھی کر لیتی، تاہم بعض سیاسی و دفاعی مبصرین کے مطابق سیاسی قیادت نے جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہاردی۔

سیاسی و عسکری قیادت میں عدم مطابقت 

سینئر صحافی نسیم زہرہ نے کارگل کی جنگ پر فرام کارگل ٹو کوپ نامی ایک کتاب تحریر کی جس میں تصدیق کی گئی کہ کارگل آپریشن پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت میں عدم مطابقت موجود تھی۔

نسیم زہرہ کے مطابق جب آپریشن ختم ہوگیا تو اس حوالے سے وزیرِاعظم نواز شریف اور دفاعی کمیٹی کو مکمل بریفنگ عسکری قیادت نے مئی 1999ء میں یعنی آپریشن کے تقریباً 6 ماہ بعد دی۔

دوسری جانب عسکری قیادت یعنی پاک فوج ان تمام معاملات کی تردید کرتی ہے۔ پاک فوج کے مطابق سیاسی قیادت نہ صرف کارگل کے آپریشن سے آگاہ تھی بلکہ آپریشن سے قبل اسے اعتماد میں بھی لیا گیا۔

بھارت کی طرف سے ناکامی کا اعتراف

بھارتی فوج سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) مہندر پوری نے گزشتہ برس کے اوائل میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ سن 1999ء میں پاکستان جب کارگل کے علاقے میں گھس آیا جو ہماری عسکری انٹیلی جنس اور دیگر خفیہ و حساس اداروں کی بڑی ناکامی قرار دی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ مہندر پوری نے کارگل کے دوران آپریشن وجے میں شامل ماؤننٹن ڈویژن نمبر 8 کی قیادت کی۔ لیفٹیننٹ جنرل کے مطابق پاکستان مسئلۂ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے کارگل کے میدان میں اترا جبکہ یہ پاکستان کی طرف سے کوئی پہلی پیش قدمی نہیں تھی۔

وزیرِ اعظم نواز شریف اور بھارتی جنرل کشن پال کا بیان 

سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف سے جب کارگل کی جنگ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کارگل جنگ کے ذمہ دار سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر پرویز مشرف نے استعفیٰ دیا تو کیا سیاسی خلاء پیدا ہوجائےگا؟ انہوں نے کہا کہ سیاسی خلاء آمریت کے دور میں ہوتا ہے۔

سرحد کی دوسری جانب بھارتی فوج کے سابق جنرل کشن پال نے تسلیم کیا کہ بھارت کارگل کی جنگ نہیں جیت سکا۔ جنگِ کارگل میں فارمیشن کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے کشن پال نے کہا کہ ہمارے 527 فوجی جان کی بازی ہار گئے۔ جانیں ضائع ہونے کو کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم سفارتی سطح پر بھی ناکام رہے۔

کیپٹن کرنل شیر خان کا کارنامہ

دشمن سے لڑتے لڑتے اگر آپ کی جان بھی چلی جائے تو کبھی دشمن یہ بات تسلیم نہیں کرے گا کہ آپ بہادری سے لڑے، لیکن کیپٹن کرنل شیر خان قوم کا وہ بہادر سپوت ہے جس کی بہادری کی دشمن نے بھی تعریف کی۔

جنگِ کارگل کے دوران کیپٹن کرنل شیر خان ٹائیگر ہل کے محاذ پر بے حد بہادری سے لڑے۔ دوسری جانب لڑائی کی قیادت کرے والے بھارتی بریگیڈئیر ایم ایس باجوہ نے کہا کہ میں 71ء کی جنگ بھی لڑ چکا ہوں، کوئی پاکستانی افسر اس طرح جنگ کی قیادت نہیں کرتا جیسے کرنل شیر خان نے کی۔

بھارتی بریگیڈئیر باجوہ کے مطابق کیپٹن شیر خان نے مقابلے میں بے حد بہادری دکھائی۔ آخر میں کرپال سنگھ نامی ہمارے فوجی نے 10 گز کے فاصلے سے اچانک برسٹ مار کر انہیں شہید کردیا۔

بریگیڈئیر کے بیان کے مطابق جب پاکستان کا حملہ ختم ہوا تو 30 پاکستانی شہیدوں کی میتوں کو بھارتی فوج نے خود دفنایا لیکن کرنل شیر خان کی میت کو بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں رکھا گیا۔ جب ہم نے کیپٹن کی میت واپس کی تو ان کی جیب میں ایک کاغذ رکھ دیا جس پر لکھا تھا کہ کرنل شیر خان بے حد بہادری سے لڑے، انہیں ان کا حق ملنا چاہئے۔

حوالدار لالک جان کی شہادت

نشانِ حیدر پانے والے آخری پاکستانی فوجی حوالدار لالک جان ہیں جو کارگل کے محاذ پر لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ بطور حوالدارقوم کے اِس سپوت نے کارگل کی جنگ میں دشمن کے خلاف اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کیں۔

حوالدار لالک جان ناردرن لائٹ انفنٹری نامی اپنے یونٹ میں پہنچے اور کیپٹن کرنل شیر خان کے ساتھ بے جگری سے لڑے۔ آپ درجن بھر ساتھیوں کی قیادت کر رہے تھے اور مشکوہ نلہ کی پوسٹ پر کمانڈر تعینات تھے۔

جب دشمن نے حملہ کیا تو حوالدار لالک جان اور ساتھی سپاہی ڈٹ گئے۔ 2 سے 6 جولائی تک منفی 30 درجۂ حرارت پر شدید زخموں کے باوجود دشمن گن کو ہلکی مشین گن سے بھاری نقصان پہنچاتے رہے۔

بعد ازاں دشمن نے حملے تیز کردیئے جن کے نتیجے میں حوالدار لالک جان کو شدید زخم آئے، تاہم وہ مورچہ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ 7 جولائی کو آج سے ٹھیک 21 سال قبل حوالدار لالک جان شہید ہو گئے۔

قوم کیلئے بہترین خدمات، بہادری اور شجاعت کے اعزاز میں حوالدار لالک جان اور کیپٹن کرنل شیر خان کو نشانِ حیدر سے نوازا گیا اور قوم آج بھی ملک کے بہادر سپوتوں کے کارنامے یاد کر رہی ہے۔ 

 

Related Posts