اہلیہ کی ’’نسوانیت‘‘ پر سوالیہ نشان، فرانسیسی صدر کا کڑا امتحان

مقبول خبریں

کالمز

dr jamil
دہشت گردی کا چیلنج
dr jamil
استنبول مسلم وزرائے خارجہ کا مشترکہ اعلامیہ۔۔۔کیا اسرائیل جنگ بندی کی پابندی کرسکے گا؟
dr jamil
امریکا بھارت دفاعی پینگیں اور اس کے خطے پر مضر اثرات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا میں مقدمات کی کمی تو کبھی نہیں رہی، لیکن بعض مقدمے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انسان سوچتا ہے یہ عدالت ہے یا تھیٹر؟ تازہ مثال فرانسیسی صدر ایمانویل ماکرون اور اُن کی اہلیہ بریجیت ہیں، جنہیں امریکی عدالت میں یہ ثابت کرنا پڑ رہا ہے کہ بریجیت واقعی ’’خاتون‘‘ ہیں، مرد نہیں۔
جی ہاں آپ نے درست پڑھا۔ معاملہ یوں ہے کہ ایک امریکی انفلوئنسر کانڈیس اووینز نے اپنے لاکھوں فالوورز کو یہ ’’انکشاف‘‘ سنایا کہ بریجیت ماکرون دراصل مرد ہیں جو عورت بن کر ایلیزے محل میں بیٹھی ہیں۔ یہ سن کر دنیا بھر کے میڈیا کو گویا ہنسی کا نیا موضوع مل گیا، لیکن ماکرون فیملی کے لیے یہ قصہ بالکل مزاحیہ نہیں تھا۔
دنیا میں مسائل کی کمی تھی کیا، جو اب امریکی عدالت کو یہ بھی طے کرنا پڑ رہا ہے کہ فرانس کے صدر کی اہلیہ واقعی خاتون ہیں یا محض افواہوں کے مطابق سابقہ مرد؟ جی ہاں، آپ نے درست پڑھا۔ یہ کوئی مزاحیہ خاکہ یا طنزیہ فلم کا منظر نہیں، بلکہ حقیقی مقدمہ ہے جو اس وقت امریکی عدالت میں زیرِ سماعت ہے اور دنیا بھر کا میڈیا منہ کھولے کھڑا ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک مشہور امریکی دائیں بازو کی “انفلوئنسر” کانڈیس اووینز نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں اور بے لگام زبان کے ساتھ دعویٰ کر ڈالا کہ فرانسیسی خاتونِ اوّل بریجیت ماکرون دراصل پیدائشی طور پر مرد تھیں۔ بس پھر کیا تھا، سوشل میڈیا پر اس افواہ نے ایسے پر پَر نکالے کہ فرانسیسی ایوان صدر لرز کر رہ گیا۔
جولائی کے مہینے میں ماکرون اور ان کی اہلیہ نے اووینز کے خلاف مقدمہ ٹھوک دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ محض افواہ نہیں بلکہ باقاعدہ “کردار کُشی” ہے اور محترمہ اووینز نے جان بوجھ کر حقائق کو جھٹلایا تاکہ سستی شہرت کمائی جا سکے اور اپنی “الٹرا رائٹ” نظریاتی مالا کو مزید چمکایا جا سکے۔
ایمانویل ماکرون نے خود ایک فرانسیسی جریدے سے کہا: “یہ صرف میرے وقار کا معاملہ نہیں، بلکہ میرے خاندانی شرف کی بات ہے۔” اور پھر طنزیہ انداز میں مزید کہا کہ “یہ سب بکواس ہے اور محترمہ اووینز اچھی طرح جانتی تھیں کہ وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔” یعنی سیدھی سی بات سازش کا مال بیچنے کے لیے “بیگم صاحب” کی عزت اچھالی گئی۔
ادھر اووینز، جو کبھی کنزرویٹو پلیٹ فارم “ڈیلی وائر” کی اسٹار کمنٹیٹر تھیں اور جن کے سوشل میڈیا پر لاکھوں پیروکار ہیں، بار بار یہ گُڑگڑاہٹ چھوڑتی رہیں کہ “بریجیت اصل میں مرد ہیں۔” گویا ان کے پاس دنیا کے سارے تحقیقی کام ختم ہو گئے اور یہی ایک حقیقت رہ گئی تھی دریافت کرنے کو۔
اب عدالت میں دونوں طرف کے وکلاء لٹھ لیے کھڑے ہیں۔ اووینز کے وکلاء چیخ رہے ہیں کہ “یہ مقدمہ مسترد کیا جائے!” جبکہ ماکرون کے وکیل ٹام کلئیر کا کہنا ہے کہ “بریجیت کے لیے یہ الزامات نہایت تکلیف دہ ہیں اور صدر ماکرون کی زندگی کا سکون برباد ہو گیا ہے۔ کوئی بھی شوہر، خواہ صدر ہی کیوں نہ ہو، بیوی پر ایسے حملے برداشت نہیں کر سکتا۔” اور پھر انہوں نے بی بی سی کے ایک پروگرام میں نہایت سنجیدگی سے کہا: “دیکھیں، جب آپ کا خاندان ہدف بنتا ہے تو یہ بہت تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ صدر بھی آخر انسان ہی ہیں، فولاد کے بنے ہوئے تو نہیں۔”
یہاں آکر طنز یہ ہے کہ ماکرون کے وکلاء کو عدالت میں “سائنسی ثبوت” لانے پڑیں گے۔ جی ہاں، سائنسی ثبوت کہ محترمہ بریجیت عورت ہیں، مرد نہیں۔ سچ پوچھیے تو دنیا کے عدالتی نظام پر رحم آتا ہے کہ اس سطح تک تحقیق بھی ضروری سمجھی جا رہی ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ثبوت کس نوعیت کے ہوں گے، مگر وکیل صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ “عام بھی اور خاص بھی” دونوں قسم کے شواہد عدالت میں رکھے جائیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بریجیت کی “مردانگی” کی افواہیں کوئی نئی ایجاد نہیں۔ 2021 میں یوٹیوب پر دو فرانسیسی بلاگر خواتین نے ایک ویڈیو اپلوڈ کی تھی جس میں یہی دعویٰ کیا گیا تھا اور تب سے یہ جھاگ کی طرح بار بار اوپر آ رہی ہے۔ اب کانڈیس اووینز نے اسی پرانی ہانڈی کو دوبارہ چولہے پر رکھ دیا اور دھواں ایسا اٹھا کہ عدالت تک جا پہنچا۔
بریجیت ماکرون کے وکیل کا کہنا ہے: “یہ پورا عمل بہت تکلیف دہ ہے مگر میری مؤکلہ پوری طرح تیار ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ایک بار اور ہمیشہ کے لیے ان افواہوں پر خطِ تنسیخ کھینچا جائے۔ جی ہاں، وہ عدالت میں سب کچھ پیش کرنے کے لیے سو فیصد تیار ہیں۔”
دلچسپ بات یہ کہ “سب کچھ پیش کرنے” کے بارے میں سوشل میڈیا پر جو تبصروں کا طوفان اٹھا ہے، اس پر ہم لب کشائی سے قاصر ہیں۔ جس طرح یہ قانونی جنگ عدالت کے کٹہرے میں لڑی جا رہی ہے، اسی طرح سوشل میڈیا صارفین نے بھی محاذ سنبھال رکھا ہے۔ کانڈیس اووینز کا حامی فریق فرانسیسی خاتون اول کو ہرحال میں مردِ کامل ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ان کے پاس سب سے قوی دلیل بریجیت کی ایک پرانی تصویر ہے، جس میں انہیں نیم برہنہ حالت میں دیکھا جاسکتا ہے اور مبینہ طور پر تصویر میں ان کے اعضائے مخصوصہ کی واضح نشاندہی فرما کر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ دیکھیے اور خود ہی فیصلہ کیجئے کہ یہ مرد ہیں کہ عورت؟!
سوال یہ اٹھا کہ کیا ماکرون فیملی اپنی پرانی تصاویر بھی دکھائے گی، مثلاً وہ تصاویر جن میں بریجیت حاملہ تھیں یا بچوں کی پرورش کر رہی تھیں؟ تو وکیل کلئیر نے مسکرا کر کہا: “جی بالکل، یہ سب کچھ موجود ہے اور عدالت میں پیش کیا جائے گا۔” اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی عدالت میں بچوں کی پرانی تصویریں اور میڈیکل رپورٹس شہادت کے طور پر کتنا وزن رکھتی ہیں۔
قانونی تقاضوں کی بات کریں تو امریکہ میں کسی عوامی شخصیت کو بدنام کرنے کے مقدمے میں کامیابی کے لیے “بدنیتی” یعنی “actual malice” ثابت کرنا ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ مدعا علیہ کو علم تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے، پھر بھی بولا، یا اس نے بے احتیاطی میں سچائی کی پروا نہیں کی۔ گویا یہ کیس صرف “عورت یا مرد” کے ثبوت پر نہیں بلکہ اس بات پر بھی ہے کہ اووینز نے جان بوجھ کر جھوٹ پھیلایا یا نہیں۔
اب دنیا حیران بیٹھی ہے کہ عدالت میں آخر یہ تماشہ کیا رنگ دکھائے گا۔ کہیں یہ معاملہ “ڈی این اے رپورٹس” تک نہ جا پہنچے، ورنہ ماکرون فیملی کو ثابت کرنا ہوگا کہ بیگم صاحبہ نہ صرف خاتون ہیں بلکہ انہوں نے “بیوی” اور “ماں” کے فرائض بھی عملی طور پر ادا کیے ہیں۔ گویا عدالت کو تاریخ، سائنس اور جذبات سب کچھ ملا کر فیصلہ دینا پڑے گا۔
حقیقت یہی ہے کہ یہ مقدمہ ہمیں بتا رہا ہے کہ سوشل میڈیا کی بدگمانیوں کا تسلسل کہاں جا کر رکتا ہے اور طنز یہ ہے کہ دنیا کے ایک بڑے ملک کا صدر، جو ایٹمی کوڈز سنبھالتا ہے، آج اپنی اہلیہ کے صنفی وجود کا سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کرنے پر مجبور ہے۔ اگر یہ دنیا کی سب سے بڑی “سیاسی کامیڈی” نہیں تو پھر کیا ہے؟

Related Posts