پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، نیت کا فتور ہے،قدسیہ راجہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

qudsia raja exclusive talk to MM News

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کھیل جسمانی صحت مندی کے ساتھ ساتھ تفریح کا ایک ایسا طریقہ ہے جس سے نظم وضبط رکھنے کا درس ملتا ہےاورایک صحت مند دماغ کے لیے ایک صحت مند جسم کاہونا ضروری ہے اور فضل خدا پاکستان میں کھیلوں کا ایسا ٹیلنٹ پایا جاتا ہے جس نے پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواہے اور جہاں بات خواتین کی ہو تو پاکستان کی خواتین میں کھیلوں کے حوالے سے پناہ ٹیلنٹ پایا جاتا ہے ۔

ایسا ہی ایک نام قدسیہ راجہ ہے ایک نامور کھلاڑی کے ساتھ پاکستان میں ٹینس اور ٹیبل ٹینس کی پہلی خاتون انٹرنیشنل امپائر ہیں اور پاکستان میں قومی سطح کے 7 مقابلوں میں امپائرنگ کے فرائض انجام دے چکی ہیں۔

ایم ایم نیوز نے ان کے طویل کیریئر کے نشیب و فراز جاننے کیلئے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

ایم ایم نیوز: کھیل کے میدان میں آنے کا فیصلہ کب اور کیوں کیا ؟

قدسیہ راجہ: کھیل کے میدان میں آنے کا فیصلہ میرا نہیں بلکہ میرے رب کا تھا، والد صاحب کی اچانک وفات کے بعد چونکہ میرے پاس نہ زیادہ تعلیم تھی نہ کوئی ہنر صرف کھیلنے کا شوق تھا تو باامر مجبوری مجھے آفیشل بننا پڑا۔

میں نے میٹرک سے کھیلنے کا فیصلہ کیا اور کالج میں بھی اسپورٹس میں حصہ لیتی تھی اور جب عملی زندگی میں قدم رکھنے کا مرحلہ آیا تو میرے لئے کھیل کا شعبہ اپنے شوق اور روزگار کو پروان چڑھانے کیلئے زیادہ موزوں لگا۔

اس لئے میں نے پروفیشنل کھلاڑی بننے کا فیصلہ کیا اور 1990میں کھیلنا شروع کیا اور 1997 میں نوکری شروع کی ۔7 سال والدین کے زیر شفقت کھیلنے کے بعد بطور پروفیشنل کھلاڑی کھیل کے ہی ہوکر رہ گئے۔

ایم ایم نیوز: اب تک کن کن کھیلوں میں حصہ لیا اور کون کون سے اعزازات حاصل کئے ؟

قدسیہ راجہ: میں نے انٹراسکول اور انٹرکالج کے تقریباً تمام کھیلوں میں حصہ لیا، ایتھلیٹکس میں 100 میٹر، سومیٹررکاوٹیں، 200میٹر، 400 میٹر، حالانکہ مجھے بھاگنا دوڑنا قطعی پسند نہیں تھا لیکن کھیل کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے 800میٹرز کی دوڑ میں بھی حصہ لیا۔

1989میں اسکول میں تھرو بال چیمپئن شپ سے کھیل کا آغاز کیا اور تھروبال، نیٹ بال، باسکٹ بال، بیڈمنٹن، ایتھلیٹکس میں ڈسک جولین کے علاوہ لانگ جمپ، ہائی جمپ، ٹیبل ٹینس اور ٹینس سمیت تمام کھیلوں میں حصہ لیااور الحمد اللہ خدا نے بہت عزت دی۔

مجھے پاکستان کی واحد خاتون آفیشل ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نے پاکستان کی 7 اسپورٹس فیڈریشنز کی قومی سطح پر امپائرنگ کی ہے۔ٹیبل ٹینس کی واحد پاکستانی خاتون امپائر ہوں جس نے بیرون ممالک میں امپائرنگ کے فرائض انجام دیئے اس کے علاوہ ساؤتھ ایشین ویٹرنز ٹیبل ٹینس اور ٹینس میں آئی ٹی ٹی ایف کے جونیئر مقابلوں سمیت کئی ایونٹس میں خدمات انجام دیں۔

میں نے بیرونِ ملک صرف ٹیبل ٹینس امپائرنگ کی ہے۔ میں نے ڈیوس کپ کی بھی پاکستان میں امپائرنگ کی۔ بیرونِ ملک ٹینس کی امپائرنگ تاحال نہیں کی۔

ایم ایم نیوز:پاکستان میں گراس روٹ لیول پر بچوں کیلئے کیا کرنے کی خواہش ہے ؟

قدسیہ راجہ: اوائل عمری میں جب ہم کھیلتے تھے تو ہمارے کوچز ہماری رہنمائی کرتے تھے اور اگر دیکھا جائے تو کوچ کا کام آپ کو سکھانا نہیں ،کھلانا ہوتا ہے۔ ہمارا سیکھنے کا عمل زیادہ اچھا نہیں تھا لیکن میری خواہش ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع دیا تو میں بچوں اور بچیوں کیلئے ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کرونگی جہاں ان کی صلاحیتوں کو نکھارا جاسکے کیونکہ یہاں اکثر کھلاڑیوں کو کھیلناتو آتا ہے لیکن کھیل سے متعلقہ دیگر امور کی معلومات نہیں ہوتیں اور یونیورسٹی کی سطح کے مقابلے میں، میں نے بھی ایسی صورتحال کا سامنا کیا۔

اس لئے میری خواہش ہے کہ میں بچوں کوکھیل سے متعلق بنیادی مہارات سکھاؤں  اور الحمد اللہ میں نے 2013 میں اپنی والدہ کی بدولت اپنی آرگنائزیشن شروع کی جس کا نام اسپورٹس اویئرنس پروگرام تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اسکول، کالج اور یتیم خانوں کے بچوں کو ہم کھیلوں کی بنیادی مہارتیں سکھائیں۔

ایم ایم نیوز:ایک کھلاڑی اور امپائر کس حیثیت میں زیادہ مزہ آیا اور وجہ کیا تھی ؟

قدسیہ راجہ: جب کھلاڑی تھے تو کھیل کر انجوائے کرتے تھے اور بطور آفیشل اپنا ایک الگ مزہ ہے، آج بھی جب موقع ملتا ہے توکھیل کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں لیکن امپائرنگ میں یہ ہوتا ہے کہ آپ کی بے عزتی بہت ہوتی ہے کیونکہ ہارنے یا پوائنٹ گنوانے والا کھلاڑی کبھی آپ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتا۔

نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر مقابلوں میں کھلاڑی ایک ایک پوائنٹ کیلئے بہت جارحانہ رویہ اپناتے ہیں لیکن الحمد اللہ مجھے دونوں شعبوں میں مزہ آتا ہے ۔میرا پیشہ ہی میرا جنونہے لیکن اگر دونوں میں سے ایک کا انتخاب ہو تو مجھے امپائرنگ میں زیادہ مزہ آتا ہے۔

چاہے کھیلوں یا امپائرنگ کروں میرے لئے دونوں شعبے پسندیدہ ہیں اور میری خواہش ہے کہ جیسے کرکٹ میں پاکستان کے علیم ڈار کو پوری دنیا میں اپنی بہترین امپائرنگ کیلئے ایک منفرد مقام حاصل ہے،اسی طرح قدسیہ راجہ بھی پاکستان کی کسی اسپورٹس فیڈریشن کی انٹرنیشنل امپائر بنے اور جانی جائے۔

ٹینس فیڈریشن نے مجھے موقع دیا ہے اور آگے بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔مستقل میں ٹینس کی بہترین خاتون امپائر بنوں گی۔

ایم ایم نیوز: پاکستان میں لڑکیوں کو کھیلوں میں آنے کیلئے کن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟

قدسیہ راجہ: پاکستان میں لڑکیوں کو کھیل میں آنے کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ اپنا ہی خاندان ہوتا ہے اور اگر آپ کو اپنی فیملی کی حمایت حاصل ہوجائے اور والدین آپ کے ساتھ ہوں تو و ہ پوری دنیا سے لڑ جاتے ہیں اور بیٹیوں کیلئے چیزیں آسان ہوجاتی ہیں۔

جہاں تک ٹیلنٹ کی بات ہے تو ہماری لڑکیاں کھیلوں سمیت کسی بھی شعبے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ،بس مسئلہ یہ ہے کہ ہم ٹیلنٹ کو پھولنے پھلنے کا موقع فراہم نہیں کرتے۔

ایم ایم نیوز: پاکستان ماضی میں کئی کھیلوں میں بہت اچھی پوزیشن پر تھا اب زوال کی وجہ کیا ہے؟

قدسیہ راجہ: ماضی میں پاکستان میں کھیلوں کی اہمیت کو سمجھنے والے اہم عہدوں پر براجمان تھے اور پاکستان کی عزت و ناموس کا خیال رکھتے تھے لیکن آج جو لوگ کھیلوں کے کرتا دھرتا بنے بیٹھے ہیں وہ کھیلوں کیلئے کام نہیں کررہے بلکہ وہ صرف اپنے لئے کام کرتے ہیں۔

ملک میں ٹیلنٹ آج بھی موجود ہے لیکن ہم نے پلیٹ فارم ختم کردیئے ہیں۔ ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں ختم ہوگئی ہیں، اسکول اور کالج میں کھیلوں کو ختم کردیا گیا ہے اور جب تک یہ چیزیں دوبارہ واپس نہیں آئینگی اور ہم اپنے بجائے کھلاڑیوں پر پیسہ لگانا شروع کرینگے تو پہلے سے زیادہ بہترمقام حاصل کرسکتے ہیں ۔افسوس کہ یہاں کھیل او رکھلاڑی کے بجائے اپنی ذات پر پیسہ لگارہے ہیں۔

ایم ایم نیوز: اولمپکس میں پاکستان کئی سال سے کوئی تمغہ حاصل کرنے میں کیوں ناکام رہا ؟

قدسیہ راجہ: اولمپکس ایک ایسا ایونٹ ہے جس کیلئے سالہا سال تیاریاں کی جاتی ہیں۔ حال ہی میں ختم ہونے والے اولمپکس کے بعد دنیا میں اگلے مقابلوں کیلئے پلاننگ کی جارہی ہے لیکن پاکستان میں دیگر شعبوں کی طرح اولمپکس میں بھی عجیب نظام ہے۔

یہاں جس سے اولمپکس کا انعقاد ہونا ہے اسی سال سوچتے ہیں کہ کوئی کھلاڑی منتخب کرلیں جو وہاں پاکستان کی نمائندگی کرلے اور ہم اس کے ساتھ مفت کی تفریح کرسکیں۔ہمارے زوال کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیتے بلکہ یہاں خداداد صلاحیتوں پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں شائد ایسا شاذو نادر ہی ہوا ہو کہ کسی بچے کوراستے سے اٹھاکر کھلاڑی بنادیا گیا ہو، بلکہ ہم کھلاڑی کو ہی منتخب کرتے ہیں اور اس کے ٹیلنٹ کو نچوڑتے رہتے ہیں اور جب اس کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم اس کو نکال باہر کرتے ہیں اور یہاں المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں جو کھلاڑی کریم بنتا ہے اس کو نکال دیا جاتا ہے حالانکہ پوری دنیا کریم بننے والے اپنے کھلاڑیوںسے فائدہ اٹھاتی ہیں لیکن ہم جان چھڑا لیتے ہیں۔

حالیہ اولمپکس میں پاکستان کے ارشدندیم اور طلحہ طالب سمیت اچھی پرفارمنس دکھانے والے کھلاڑیوں نے اپنے بل بوتے پر پرفارمنس دکھائی ہے، فیڈریشن نے زیادہ سے زیادہ انہیں ایک کوچ دے دیا ہوگا ، ارشد ندیم گزشتہ اولمپکس میں بھی فتح کے قریب پہنچ کر ہار گئے تھے لیکن اگر فیڈریشن ارشد ندیم پر کام کرتا اور انہیں سہولیات دی جاتیں تو چار سال میں ان کا ٹیلنٹ مزید ابھر کر سامنے آتا۔

یہ گولڈ میڈل ارشد ندیم کا ہوتا لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہم سپورٹ کرنا یا سہولیات دینا تو دور، حوصلہ افزائی کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔پاکستان کے کھلاڑی دیگر ممالک کی طرف سے پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوارہے ہیں لیکن پاکستان میں ان کا ٹیلنٹ ضائع کردیا جاتا ہے۔

ایم ایم نیوز: کیا پاکستان میں اسپورٹس فیڈریشنز کھلاڑیوں کی درست سمت میں رہنمائی کرتی ہیں ؟

قدسیہ راجہ: پاکستان میں کوئی اسپورٹس فیڈریشن کھلاڑیوں کی کوئی رہنمائی نہیں کرتی، میں نے قومی سطح پروالی بال کھیلا لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ کہیں درست رہنمائی ہوتی ہو۔ میں نے 7 فیڈریشنز کیلئے امپائرنگ کی اور چھوڑنے کی وجہ یہی تھی کہ اتنی زیادہ اجارہ داری ہے اور پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ یہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون پیسے دے سکتا ہے یا کس کا خاندانی پس منظر یا سفارش کیا ہے۔

یہ سب دیکھا جاتا ہے مگریہاں ٹیلنٹ کی کوئی قدر نہیں ۔ پاکستان ٹیبل ٹینس فیڈریشن نے 2007 میں بیسک امپائرنگ کا ایک ریفریشر کورس کروایا تھا اور بھارت سے ایک سینئر امپائرگھنشام ایئرکو مدعو کیا گیا تھااور اس کورس میں میری پورے ملک میں تیسری پوزیشن تھی۔

گھنشام ایئر مجھے کہہ کر گئے تھے کہ بطور خاتون ٹیبل ٹینس امپائرنگ کو اپنا پروفیشن بنالیں کیونکہ آپ اچھی امپائر بن سکتی ہیں لیکن جہاں غیر ملکی امپائر میری حوصلہ افزائی کرکے گیا وہاں میری فیڈریشن نے مجھ سے رابطہ ہی چھوڑ دیا اور مجھے بلایا ہی نہیں گیا۔

مجھ سے فیورٹ ازم برداشت نہیں ہوتا اسی لئے 7 فیڈریشنز میں بطور امپائر خدمات کے بعد آج ان کے نامناسب اور غیر پیشہ ورانہ رویوں کی وجہ سے فیڈریشنز سے قطع تعلق کرکے گھر بیٹھی ہوں۔

ایم ایم نیوز: کیا پاکستان میں واقعی کھیلوں کیلئے فنڈز کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے ؟

قدسیہ راجہ: پاکستان میں کھیلوں کیلئے فنڈز کی کمی کا نہ کبھی کوئی مسئلہ تھا ،نہ ہے اور نہ ہی ہوگا۔ یہاں فنڈز کی کمی کا رونا اس لئے رویا جاتا ہے کیونکہ ہمارے اپنے پیٹ اور جیبیں نہیں بھرتیں ۔

ایم ایم نیوز: پاکستان میں کھیلوں کی بہتری اور نوجوان نسل کو برائیوں سے بچانے کیلئے کیا کرنا چاہیے؟

قدسیہ راجہ: پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اگر آپ نوجوان نسل کو برائیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے اسپورٹس کلچر کو عام کرنا ہوگا۔ہمارے ملک میں اسپورٹس کلچر عام نہیں ہے، یہاں کھیلوں کے شعبے میں لوگوں کو نوکریاں نہیں ملتیں۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک خاندان میں ایک بچہ ہے یا 6 بچے ہیں انہوں نے اپنے خاندان کو سپورٹ کرنا ہے۔

جب تک ہم اپنے بچے کو معاشرتی فکروں سے آزاد نہیں کرینگے وہ کبھی بھی آپ کو پرفارمنس نہیں دے سکتا۔نوجوان نسل کو کھیلوں کی طرف راغب کرنے کیلئے اسپورٹس کلچر عام کرنا ہوگا۔ہم ملک میں ایک دو کھیلوں پر ہی توجہ دیتے ہیں اور اسی کو پروموٹ کرتے ہیں۔

میڈیا کو باسکٹ بال،ٹینس،مکے بازی،بلیئرڈ،اسکوائش،بیڈمنٹن،والی بال،جمناسٹک اورٹیبل ٹینس سمیت تمام کھیلوں کو پروموٹ کرنا چاہیے تاکہ نوجوان نسل کو کھیلوں کی طرف راغب کیا جاسکے۔انٹر اسکول اور انٹر کالج میں کھیلوں کو پروان چڑھانا ہوگاتب ہی ہم نوجوان نسل کو برائیوں سے بچا کر ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

ایم ایم نیوز: کیا پاکستان مستقبل میں کھیلوں میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتا ہے ؟

قدسیہ راجہ: پاکستان نے اپنی مرضی سے کھیلوں میں اپنا مقام کھویاہے اور جب چاہے یہ مقام نہ صرف واپس حاصل کرسکتا ہے بلکہ اس سے آگے بھی جاسکتا ہے۔ کیونکہ آج جدید دور ہے جس میں سہولیات زیادہ ہیں۔

جب ہم 1992 میں کھیلتے تھے تو ہمارے پاس کوئی سہولیات نہیں تھیں، آج سب کچھ ہمارے ہاتھوں اور انگلیوں کی دسترس میں ہے۔ پاکستان کو کھویا ہوا مقام یا اس سے آگے کا مقام حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، شر ط یہی ہے کہ پاکستان خود ایسا چاہے۔

Related Posts