امریکا کے فضائی حملے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نیویارک ٹائمز کے صحافی عظمت خان کی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ نے 2014 سے امریکا کی جانب سے عراق، شام اور افغانستان میں کیے گئے فضائی حملوں میں امریکی حکومت اور محکمۂ دفاع (پینٹاگون) کی غلطیاں بے نقاب کردیں۔ مذکورہ تینوں ممالک میں 1 ہزار 311 فضائی حملوں میں غلط ہدف کو نشانہ بنایا گیا جس پر احتسابی نظام سرے سے نظر ہی نہیں آیا بلکہ اس کی بجائے پینٹاگون نے استثنیٰ کے نظام کو فروغ دیا۔

جو خفیہ دستاویزات کا خزانہ مذکورہ صحافی سامنے لائے، وہ نشاندہی کرتا ہے کہ پینٹاگون نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فضائی حملوں کو گہری ناقص انٹیلی جنس کے تحت انجام دیا اور ان حملوں کے نتیجے میں کئی بچوں سمیت ہزاروں شہری ہلاک ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت اور پینٹاگون کی شفافیت اور احتساب کی یقین دہانیاں بھی کھوکھلی ثابت ہوئیں۔ نیو یارک ٹائمز نے 2 حصوں پر مشتمل تحقیقاتی سیریز میں کہا کہ “فراہم کیے ایک بھی ریکارڈ میں غلط حملوں پر تادیبی کارروائی یا انکوائری شامل نہیں” جبکہ تحقیقات سے یہ نام نہاد انکشاف سامنے آیا کہ شہریوں کی ہلاکتیں بڑی حد تک کم ہوئی تھیں۔

سلمان رشید کے مزید کالمز پڑھیں:

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی سے سبق

پاکستان اور حفظانِ خوراک کا مسئلہ

مثال کے طور پر 16 جولائی 2016کو امریکی اسپیشل فورسز کی بمباری کے نتیجے میں شام کے شمالی علاقے میں آئی ایس آئی ایس کے 3 مبینہ علاقوں میں ابتدائی طور پر 85 جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ سامنے آیا تاہم مرنے والوں میں حقیقی طور پر 120 کسان اور دیگر دیہاتی افراد شامل تھے۔ امریکی فوج کے ان فضائی حملوں میں ناکامیاں ناقص نگرانی کی فوٹیج کے باعث ہیں جسے امریکی حکومت اور پینٹاگون “غلطیوں” کے طور پر مسترد کردیتے ہیں لیکن اس سے جاں بحق شہریوں کے اہلِ خانہ کو کوئی تسلی نہیں ملتی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غلطیاں دراصل جنگی جرائم ہیں جن کی عالمی برادری کو تحقیقات کرنا ہوں گی۔ ذمہ داران پر مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔

اوباما حکومت میں فضائی حملوں اور ڈرون مہم میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ بارک اوباما نے دعویٰ کیا کہ ڈرون کا استعمال تاریخ کی سب سے درست فضائی مہم کی نمائندگی کرتا ہے جس سے شہریوں کی کم سے کم ہلاکتیں یقینی ہوتی ہیں۔ تاہم، حقیقت اس کے برعکس نکلی کیونکہ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ سے یہ خوفناک انکشاف سامنے آیا ہے کہ امریکی فوج نے افغانستان، عراق اور شام میں 50 ہزار سے زائد فضائی حملے کیے۔ تصور کریں کہ بارک اوباما کو امن کا نوبل انعام دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں جنگ یا عام شہریوں کی زیادہ ہلاکتیں؟

پینٹاگون کی دستاویزات منظرِ عام پر آنے سے وزیر اعظم عمران خان کے ڈرون حملوں کی مخالفت پر مبنی اصولی مؤقف کی تائید ہوتی ہے کیونکہ شہریوں کی ہلاکتیں مغربی افواج اور سہولت کار مقامی حکومتوں کے خلاف عوام میں مزید غم و غصہ اور ناراضگی کا سبب بنتی ہیں جس سے غیر ریاستی عناصر اور ایسے دہشت گرد پیدا ہوسکتے ہیں جنہیں مقامی آبادی کی حمایت و ہمدردی حاصل ہو۔

اگر امریکی حکومت اور پینٹاگون ان “غلطیوں” سے سبق سیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں  تو پھر وہ امریکی ڈرون جنگوں سے شہریوں کو پہنچنے والے نقصانات کو عوام سے کیوں چھپا رہے ہیں؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فوجی صنعتی کمپلیکس کے بیکار ہونے پر غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے بطخ کی طرح سر ریت میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔

“شہری ہلاکتوں کی فائلیں” بالکل اس سے پہلے کے “افغانستان پیپرز” کی طرح، اس سے کہیں بڑا ثبوت ہیں کہ امریکی حکومت یا کم از کم پینٹاگون نے ان جنگوں کے اخراجات اور ناکامیوں کو تسلیم کیا لیکن نقصانات قابل برداشت سمجھتے ہوئے فضائی حملے ہمیشہ کی طرح بمباری سمیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ 

فضائی حملوں، خاص طور پر ڈرون کا استعمال قتل و غارت کے لیے موزوں ہے اور سویلین کیزولٹی فائلیں اس کی نشاندہی کرتی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دوران، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امریکی فوج نے شام، افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں اور عراق جیسے خودمختار ممالک میں ڈرونز کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ ایک لمحے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ امریکہ میں ایسے “برے” لوگ گھوم رہے ہوتے جو کسی دوسرے ملک کو پسند نہ آتے اور اگر وہ ملک ان “برے” لوگوں کو ختم کرنے کے لیے پورے امریکہ میں “سرجیکل” ڈرون حملے کرنے لگتا تو امریکی حکومت اور شہریوں کا کیا ردعمل آتا؟ کیا امریکی حکومت کبھی کسی دوسرے ملک کے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے ملک پر ڈرون حملوں کی اجازت دے گی؟ اس کا جواب یقینی طور پر نفی میں آئے گا۔ اس معاملے پر امریکہ ناقابلِ یقین حد تک منافق ملک ہے جو جیسا کہتا ہے، ویسا کرتا نہیں۔ 

کیا ان کاغذات کے انکشافات امریکی سیاسی اور عسکری قیادت دونوں کے احتساب کا باعث بنیں گے؟ اس سوال کا جواب اداسی کے ساتھ ایک بار پھر نفی میں ہوگا۔ اگر امریکی کانگریس دہشت گردی کے خلاف جنگ کی شکست کا حقیقی احتساب چاہتی ہے تو اسے بیرونی قوتوں پر الزام لگانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ دوسروں کو قربانی کا بکرا بنانے کی بری عادت رکھتی ہے۔ جب ہم فوجی حکام اور کارپوریٹ میڈیا کو “سرجیکل” اسٹرائیکس اور “پریسیئن” کے بارے میں بات کرتے سنتے ہیں، تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پینٹاگون کی ان دستاویزات کے انکشافات کی وجہ سے یہ اصطلاحات غلط ثابت ہوچکی ہیں۔