اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیرِ اعظم کی تقریر اور مسئلۂ کشمیر کی اہمیت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیرِ اعظم کی تقریر اور مسئلۂ کشمیر کی اہمیت
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیرِ اعظم کی تقریر اور مسئلۂ کشمیر کی اہمیت

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مسئلۂ کشمیر کسی 2 عام سے ممالک کا معاملہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیاء کے 2 اہم ترین ممالک کے درمیان 70 سال سے سلگتا ہوا مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں پہلے بھی جنگیں ہوئیں جو آگے چل کر خدانخواستہ تیسری عالمی جنگ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ 

گزشتہ روز وزیرِ اعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک اور دھواں دھار تقریر کی اور غاصب بھارت کے چھکے چھڑا دئیے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے سفارت کار تقریر سے قبل ہی واک آؤٹ کر گئے جو سفارتی سطح پر بھارت کی واضح ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آئیے آج وزیرِ اعظم عمران خان کی اس تاریخی تقریر کا جائزہ لیتے ہیں اور مسئلۂ کشمیر کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو برسہا برس سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیرِ التواء ہے اور مظلوم کشمیری آج بھی اس کے حل کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی تقریر

عالمی ادارے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ روز وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کردی اور 80 لاکھ کشمیریوں کو محصور کرنے کیلئے اضافی فوج بلائی۔ عالمی برادری کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ضرور تحقیق کرے۔ بھارتی فوجی دہشت گرد ہیں جو جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت سینکڑوں کے حساب سے بے گناہ کشمیری عوام کا قتلِ عام کرنے میں ملوث ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ جب تک مسئلۂ کشمیر حل نہ ہو، جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کا قیام ایک خواب ہے۔ گزشتہ برس سلامتی کونسل نے 3 بار مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات کی۔ اگر بھارت کی فسطائی حکومت پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ہم حقِ خود ارادیت کیلئے کشمیریوں کی جائز جدوجہد کے حق میں ہیں۔ بھارت فوری طور پر مقبوضہ کشمیر سے فوجی محاصرہ ہٹائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے۔

خطاب کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ خطے میں امن و استحکام ہمارا مقصد ہے۔ دنیا میں جب تک ہر شخص کو محفوظ نہ کردیا جائے، کوئی  بھی شخص خود کو محفوظ نہیں سمجھ سکتا۔ کورونا وائرس کے باعث غریب ممالک قرضوں تلے دب گئے، قرض کی ادائیگی کیلئے دسمبر تک ریلیف بڑھایا جائے۔ امیر ممالک منی لانڈرنگ کے ذمہ داروں کو تحفظ دیتے ہیں، اس طرح انسانی حقوق کی بات نہیں کی جاسکتی۔ 

تقریر پر سوشل میڈیا صارفین کا ردِ عمل 

ایک طرف وزیرِ اعظم عمران خان کی تقریر سے پاکستان کا وقار بلند ہوا اور بھارت عالمی برادری میں بری طرح ذلیل و رسوا ہوا تو دوسری جانب عوام کی طرف سے بھی وزیرِ اعظم کی تقریر کو بے حد سراہا گیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹؤئٹر پر وزیرِ اعظم عمران خان کی تقریر ٹاپ ٹرینڈ رہی۔ ذیشان سید نامی سوشل میڈیا صارف نے بھارتی مندوب کے اٹھ کر بھاگنے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ جب عمران خان بولتے ہیں، کسی کو ان کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں ہوتی۔ 

علی نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے زبردست تقریر کی جس کے مابطق جنوبی ایشیاء میں امن مستحکم نہیں ہوسکتا، جب تک کہ مسئلۂ کشمیر حل نہ ہوجائے۔ وزیرِ اعظم، آپ کا شکریہ۔ 

مسئلۂ کشمیر کی اہمیت اور جنگ کے خطرات 

کسی بھی 2 ممالک کے درمیان برسہا برس سے حل طلب مسئلہ جنگ کا سبب بن سکتا ہے لیکن وہ جنگ شاید اتنی اہم نہ ہو جتنی کہ پاک بھارت جنگ ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں۔

خدانخواستہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی جنگ ہوئی تو ان کے اتحادی ممالک مثلاً چین، امریکا، روس، یورپی ممالک اور دیگر بھی اس کا حصہ بن جائیں گے کیونکہ یہ دونوں ممالک ان کی شہہ پر ہی ایسے خطرناک کام کا حصہ بنیں گے۔

پاک بھارت جنگیں پہلے بھی ہوئی ہیں لیکن آج کل صورتحال پہلے کی نسبت بے حد الگ ہے کیونکہ ایک طرف پاکستان ایٹمی طاقت ہے تو دوسری جانب بھارت کی طرف سے بھی حملے کی واضح دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ جنگ کا خطرہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 

مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کا نیا رُخ 

سال 2019ء کے دوران 5 اگست کو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کردی یہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے کی بھونڈی ترین عملی کوشش تھی جس پر بھارت کی عالمی سطح پر جنگ ہنسائی ہوئی۔

یہی نہیں، بلکہ بھارت نے کشمیر میں ایک لاک ڈاؤن نافذ کردیا جسے آج 1 سال اور 1 ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ مظلوم کشمیریوں پر عرصۂ حیات تنگ ہے، انٹرنیٹ، موبائل فون اور ٹی وی نشریات پر پابندیاں عائد ہیں۔

ہر گزرتے روز کے ساتھ سرچ آپریشن کے نام پر مقبوضہ کشمیر میں ایک نئی قیامت ڈھائی جاتی ہے۔ کشمیری نوجوانوں، بچوں اور خواتین کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، عصمت دری اور قتل کیے جاتے ہیں جن کا سلسلہ آج تک تھمنے میں نہیں آیا۔

یومِ استحصالِ کشمیر کیا ہے؟

آج سے1 ماہ قبل یعنی 5 اگست 2020ء کو پاکستان بھر میں یومِ استحصالِ کشمیر منایا گیا جس کامقصد 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کو بے نقاب کرنا تھا۔ بھارتی حکومت نے آئین کے آڑٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کی الگ ریاستی حیثیت ختم کی  جسے پاکستان نے یومِ استحصالِ کشمیر سے تعبیر کیا۔

تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی آئین میں یہ تبدیلی مقبوضہ کشمیر میں انتہائی خطرناک سازش کو فروغ دینے کیلئے کی گئی۔ بھارت مقبوضہ فلسطین کی طرز پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھی بھارت کی نوآبادی بنانے کیلئے اقدامات اٹھا رہا ہے۔ آج مظلوم کشمیری اپنے ہی آبائی وطن میں پناہ گزین بن کر رہنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ 

حکومتِ پاکستان نے اگست کے دوران ہی پاکستان کے نئے سیاسی نقشے کی نقاب کشائی کی، وزیرِ اعظم عمران خان کے مطابق اپوزیشن جماعتیں اور کشمیری قیادت بھی پاکستان کے نئے سیاسی نقشے سے متفق ہیں جسے نصاب میں استعمال کیا جائے گا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جب بھارت نے 5 اگست کو غیر قانونی اقدامات اٹھائے، اس نے ایک نقشہ بھی جاری کیا جس میں کشمیر کو بھارت کا حصہ دِکھایا گیا جسے پاکستان نے نیا سیاسی نقشہ جاری کرکے مسترد کیا۔

عالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ سہی، الگ الگ سیاسی نقشوں کا مقصد اپنے بیانیے کو واضح کرنا ہے۔ بھارت کے جاری کردہ نقشے میں کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں ہے جبکہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ دِکھایا۔ 

کیا تیسری عالمی جنگ ہوسکتی ہے؟

فکر کی بات یہ ہے کہ مسئلۂ کشمیر جوں جوں شدید سے شدید تر ہورہا ہے، تیسری عالمی جنگ کے خطرات بھی اسی طرح زیادہ سر اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔

بھارت کشمیر پر مسلسل سخت ظلم کر رہا ہے، دوسری جانب کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگانے والے کشمیری جب شہید ہو کر دفن کیے جاتے ہیں تو وہ پاکستانی جھنڈے کے ساتھ فانی دُنیا کو الوداع کہتے ہیں۔

جب نریندر مودی اقتدار میں آئے تو خطے میں بالخصوص 5 اگست کے بعد سے جنگ کے خطرات بڑھ گئے۔ تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق یہ جنگ تیسری جنگِ عظیم بھی ہوسکتی ہے۔

ایک موقعے پر وزیرِ اعظم عمران خان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ جنگ شروع کرنا تو ہمارے اختیار میں ہے لیکن یہ ختم کہاں ہوگی، کوئی نہیں جانتا۔ جنگ میں اصول نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جیت اور ہار جنگ کے اہم اصول ہیں۔

عالمی برادری کیلئے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت اکیلے نہیں ہیں۔ بھارت کو شہہ دینے کیلئے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ دیگر متعدد ممالک ہیں جبکہ پاکستان کے ساتھ چین، ایران، روس اور دیگر ممالک ہیں جو اگر چڑھائی کرنا شروع کریں تو تیسری عالمی جنگ خاکم بدہن، زیادہ دور بھی نظر نہیں آتی۔ 

مسئلے کا ممکنہ حل

کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے عالمی برادری کو آگے آنا ہوگا۔ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا اور پھر یہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے گا۔ 

موجودہ صورتحال میں ایسا کوئی حل ناگزیر ہونے کے باوجود ایک ایسا خواب دکھائی دیتا ہے جس کی تعبیر شاید ہی موجودہ نسل کو دیکھنے کو ملے۔ پھر بھی امید پر دُنیا قائم ہے۔ دیکھئے، اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!

Related Posts