کیا پاکستان کے تمام حکمران دُھلے دھلائے ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، ایک محفل میں احباب جمع تھے، گپ شپ ہو رہی تھی۔ ذکر پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی موجودہ قیادت کا ہوا۔ ایک دوست نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹوسے لاکھ اختلاف سہی، مگر وہ کرپٹ نہیں تھیں، ان کے بعد پارٹی قیادت جن کے ہاتھ میں آئی ، انہوں نے جی بھر کر کرپشن کی بدنامی سمیٹی اور پارٹی کو بھی تباہ وبرباد کر دیا۔ اس بات پر محفل میں موجود ایک جیالا دوست چمک کر بولا، کرپشن ثابت ہوئی ہے تو بتائیے ؟ اس پر چند لمحوں تک خاموشی رہی، پھر ایک ساتھ شور مچا۔ یار لوگوں نے بہت سے واقعات، براہ راست مشاہدات سنائے۔بڑے” صاحب “کے قریبی ساتھیوں کی کراچی میں برپا ”کرشمہ سازی “کے قصے بیان ہوئے۔ ہمارے جیالے دوست ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بڑے سکون اور اطمینان سے وہ سنتے رہے ، پھر بولے ، کرپشن کے جرم میں کسی عدالت سے سزا ملی ہو تو بتائیں؟

ایسا ہی ایک قصہ پانامہ سکینڈل پر عدالتی فیصلے سے پہلے کا ہے۔ تب بھی کسی فورم پر بحث مباحثہ چلتا رہا، شریف خاندان پر تنقید ہوتی رہی، ان کے لندن کے فلیٹس کی مثالیں دی جاتی رہیں اور بھی بہت کچھ۔ اتفاق سے اس محفل میں چند اخبارنویس بھی موجود تھے، ایک تو باقاعدہ طور پر ن لیگ کیمپ کے تصور ہوتے ہیں، انہوں نے اپنے براہ راست ”مشاہدات“ اور سینہ گزٹ” خبروں“ سے اراکین محفل کو آگاہ کیا۔

تان وہاں بھی اس پر ٹوٹی کہ اگر عدالت نے شریف خاندان کو کرپشن کے الزام میں سزا سنائی تو پھر بات کریں، ورنہ یہ سب الزامات ہی ہیں۔ اس پر تلملا کر ایک صحافی دوست نے یہ طعنہ دینے والے مسلم لیگی دوست کو کہا کہ اس طرح تو چودھری خاندان پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا، مگر آپ لوگ ان کی سپین اور معلوم نہیں کہاں کہاں جائیدادوں کے ڈھنڈورے پیٹتے پھر رہے ہو، وہ کیوں ؟ اور عدالت سے ثابت ہوئے بغیر پیپلزپارٹی قیادت پر سرے محل ، ہار اور سوئس عدالتوں کے الزامات کیوں ؟

صاحبو! اصول اور ضابطے کی بات تو یہ ہے کہ الزام برائے الزام کے بجائے ٹھوس بات کرنی چاہیے۔ جب تک عدالت کسی کو سزا نہیں سناتی، اسے میڈیا بھی مجرم نہیں کہہ سکتا۔ صرف ملزم کہنا پڑتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ عدالتوں سے فیصلے آئیں، تب ہی یہ اصول برتا جائے۔ پرانا دور چلو جانے دیں حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیا کے دور سے اب تک جو بھی حکمران آیا، کسی پر کرپشن کا الزام ثابت نہیں ہوا۔سب دھلے دھلائے، شفاف بنے پھرتے ہیں۔

میاں نواز شریف پر موٹر وے کک بیکس وغیرہ سے لندن میں جائیداد خریدنے کا الزام تھا، جو طویل عرصہ ثابت نہ ہوسکا، حتیٰ کہ پانامہ کا عالمی سکینڈل سکائی لیب کی طرح بڑے میاں صاحب کے سر پر یوں گرا کہ بوجھ سے ان کی نہ صرف وزارت عظمیٰ گئی بلکہ قید وبند تک معاملہ پہنچا۔ یہ” سعادت“ صرف بڑے میاں صاحب ہی کو ملی کہ انہیں باقاعدہ احتساب عدالت سے سزا سنائی گئی۔یہ اور بات کہ اس فیصلے کے بعد بھی جج کی ویڈیو فلم اور معلوم نہیں کیا کیا برآمد کیا جاتا رہا۔ خیراس پر اپیل ہائی کورٹ میں ہے، امید ہے کہ اس بار دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو پر نوے کے عشرے میں مختلف احتساب کیسز چلتے رہے، سوئس عدالتوں کو خط بھی لکھے گئے۔ دلچسپ بات ہے کہ ان دنوں بی بی اور ان کے ترجمان اعلان کرتے تھے کہ سرے محل سے ان کا تعلق نہیں۔ برسوں بعد میں خبریں چھپیں کہ اس سرے محل کو انہوں نے بیچ ڈالا ہے۔پارٹی کارکنوں کا حافظہ بھی شائد عام ووٹر کی طرح کمزور ہوتا ہے، انہیں پرانی باتیں یاد ہی نہیں رہتیں۔

جنرل پرویز مشرف کئی سال تک حکمران رہے، ڈکٹیٹر تھے اور ان کے ہاتھ بلوچستان اور لال مسجد میں ناحق خون سے بھی رنگے ہوئے ۔ کئی حوالوں سے سخت تنقید ہوتی ہے، امارات میں ان کی جائیداد پر بھی سوال اٹھائے جاتے کہ تنخواہ میں تو اس کا سواں حصہ ممکن نہیں۔ پرویز مشرف شاہی خاندان کی سخاوت اور تحائف کو وجہ قرار دیتے۔ مخالفین اسے کرپشن سمجھتے ہیں، ثابت مگر کہیں کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ میاں نواز شریف نے بھی کرپشن کے الزام کے بجائے انہیں آرٹیکل چھ میں سزا دلانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

مشرف صاحب کے دور میں پنجاب کے خادم یا آقا چودھری صاحب تھے۔ ا ن کے صاحبزادے جنہیں کوشش بسیار کے بعداب وفاقی وزیر بنایا گیا ، پنڈورا پیپرز میں بھی جن کا نام آ گیا۔ ان صاحبزادے کا نام چودھری صاحب کی وزارت اعلیٰ کے دنوں میں بہت سے ناگفتہ بہ معاملات میں لیا جاتا۔ کرپشن کے بے پناہ الزامات تب ن لیگ اور پیپلزپارٹی والے ان پر عائد کرتے۔ چودھری صاحب کو وزارت اعلیٰ چھوڑے چودہ برس ہونے کو ہیں، ان کی ”شفافیت “میں کوئی فرق نہیں آیا۔چند سال اسمبلی سے باہر رہ کر اب وہ سپیکر پنجاب اسمبلی بن چکے ہیں۔ پہلے کی طرح سدابہار، پاور پالیٹکس میں انتہائی فعال ۔

پرویز مشرف کے بعد جناب زرداری کا وہ سنہری دور آیا جس کا ابتدا میں ذکر کیا ۔ زرداری صاحب کا دور ہم سے زیادہ دور نہیں، اس لئے ایسی شہادتیں ڈھونڈنا بہت آسان ہے۔ جناب یوسف رضا گیلانی پر بھی ملتانی بہت کچھ الزامات لگاتے رہے۔ انہوں نے اپنے آبائی شہر میں بے پناہ ترقیاتی کام کرائے، مگر الیکشن ہار گئے کہ عوامی تاثر بہت خراب تھا۔ حکومت چھوڑے نو دس برس ہوگئے،گیلانی صاحب اور ان کے بچوں کے خلاف ثابت کچھ نہیں ہوسکا۔

زرداری صاحب گئے، میاں نواز شریف آئے ، ان کے چھوٹے بھائی پہلے سے پنجاب میں براجمان تھے، دس سال وہ متواتر وزیراعلیٰ رہے۔ شریف خاندان میں کرپشن کے الزامات پہلے بڑے بھائی پر لگائے جاتے تھے، اب عمران خان کے دور میں شہباز شریف اورا ن کے بیٹے بھی نیب ریڈار پر آئے۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ اس پوری فیملی (شہباز شریف، نصرت شہباز، حمزہ، سلمان ) کے خلاف ٹی ٹی اور منی لانڈرنگ کیس بڑی مضبوط ہے ،قانونی اصطلاح میں اوپن اینڈ شٹ کیس۔ نیب وکلا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ ٹھوس ترین ثبوت اکٹھے کر کے ہی عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔ شہباز شریف کے حامی اس الزام کو جھٹلاتے اور جواب میں نت نئی کہانیاں سناتے ہیں۔ یہ بلاگ لکھنے سے پہلے میں نے ایک باخبر وکیل اور ایک کورٹ رپورٹر دوست سے تفصیل پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ جس سپیڈ سے یہ کیس نیب کورٹ میں چل رہا ہے، اگلے دو سال تک فیصلہ آنے کا کوئی امکان نہیں۔

یارو بات یہ ہے کہ اس حساب سے تو پاکستان میں کرپشن سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ آج تک کوئی بھی سول، غیر سویلین حکمران کرپشن کے الزام میں سزا نہیں پا سکا۔

اس لحاظ سے تو ہر حکمران صاف شفاف ہے اور اس پر عائد الزامات محض پروپیگنڈا ۔ سوال یہ ہے کہ پھر ملک کی حالت اتنی ابتر کیوں ؟اگر لوٹ مار نہیں ہوئی تو ملکی وسائل کہاں خرچ ہوئے ؟ آج ہم پر ایک سو بائیس ارب ڈالر کا قرضہ کیسے چڑھ گیا ؟ اتنے مقروض کیسے ہوگئے ٹوٹل آمدنی کا نصف کے قریب صرف قرضوں کے سود اور ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے، ملک چلانے کے لئے مزید قرض لینا پڑتا ہے؟

آخری سوال یہ کہ اگر ہماری عدالتی نظام میں اتنی سکت نہیں کہ وہ حکمرانوں کا احتساب کر سکے تو اس نظام کو بہتر کیوں نہیں کیا جاتا؟اگر عدالتوں پر دباﺅ زیادہ ہے، ججوں کے پاس جلد فیصلے کرنے کا وقت نہیں تو پھر ان کی تعداد کئی گنا کیوں نہیں بڑھائی جاتی؟ سپریم کورٹ میں سترہ جج صاحبان ہیں، اگر تیس ہوجائیں تو کیا یہ مہنگا سودا ہے؟ ہائی کورٹس کے ججوں کی تعداد دوگنا کر دی جائے، ماتحت عدالتوں کی تعداد ڈھائی سے تین گنا بڑھا دی جائے تو کتنا خرچہ آئے گا؟ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کسی ایک شہر کی میٹر و بس سے کہیں کم خرچ آئے گا۔

یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا نمبر ون مسئلہ کیا ہے؟ ہمارے جیسے پسماندہ ، زوال زدہ ممالک میں ایک طویل فہرست سے کسی مسئلے کو نمبر ون پر رکھنا بذات خودمسئلہ بن جاتا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ ہمارا احتساب کا فرسودہ ،گلا سڑا نظام اور انصاف میں تاخیر…. نہایت تاخیر کر دینا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ بہتر ہوجائے تو پھر کم از کم اس سوال کا جواب تو مل جائے گاکہ ہمارے حکمرانوں میں سے کون شفاف ہے اور کون کرپٹ ؟

Related Posts