تحریک عدم اعتماد اور معیشت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اپوزیشن اتحاد کی جانب سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، مگر موجودہ صورتحال میں ملک اس چیز کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ ایک منتخب شدہ حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیج دیا جائے۔

موجودہ حکومت اپنے ساڑھے 3سال مکمل کرچکی ہے اب جبکہ معیشت کے حوالے کچھ اچھی خبریں سامنے آرہی ہیں، ایسی صورتحال میں اگر تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے اور وہ کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کا براہ راست اثر ملک کی معیشت پر پڑے گا۔

گزشتہ 2سالوں کے دوران ملک میں کورونا کی تباہ کاریوں کے باعث ویسے ہی معیشت کا برا حال ہوچکا ہے اور مہنگائی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، منتخب حکومت کے پاس ڈیڑھ سال باقی ہیں، ایسی صورتحال میں منتخب حکومت کو گرانا عمران خان کو سیاسی شہید بنانے کے مترادف ہوگا۔

حکومت کے اتحادیوں کی جانب سے بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کے سب منتخب حکومت کے ساتھ ہیں، ایسی صورتحال میں اگر تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو قوی امکان ہے کہ اپوزیشن اتحاد کو دوبارہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

دوسری جانب سیاسی جماعتیں جن میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول چکے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری گذشتہ ایک ہفتے سے لاہور میں ہیں، جہاں پہلے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے گھر ظہرانے پر انہوں نے لیگی قیادت سے ملاقات کی اور پھر چوہدری برادران کی رہائش گاہ پر ق لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات کی، اسی طرح حکمران اتحاد کی بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی قیادت نے بھی ق لیگ کی قیادت اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ان کی رہائش گاہ پر جاکر ملاقات کی۔

پارلیمنٹ میں تبدیلی لانے سے متعلق چاروں جماعتوں کے درمیان ملاقاتوں سے اپوزیشن کی جانب سے ایوان میں حکومت کی تبدیلی کا تاثر مضبوط ہونے لگا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کا اعلان سب سے پہلے آصف علی زرداری اور شہباز شریف کی ملاقات میں کیا گیا، شہباز شریف کہتے ہیں کہ چند دنوں میں پی ڈی ایم کے اجلاس میں اپنے رابطوں اور مسلم لیگ ن کی مشاورت پر سب کو اعتماد میں لیں گے کیونکہ حکومت سے جان چھڑوانا ضروری ہے۔

مسلم لیگ ن کی قیادت نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف پہلی بار قانونی طور پر حکومت مخالف تحریک عدم اعتماد پر رضامندی ظاہر کر چکے ہیں۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا بھی کہنا ہے کہ بعض حکومتی اراکین بھی رابطے میں ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی تیاری جاری ہے اور جب پیش کی جائے گی تو حقائق سب کے سامنے آجائیں گے مگر حکومت کی جانب سے اس تاثر کو مسترد کردیا گیا ہے کہ حکومتی اراکین اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔

شہباز شریف نے ایم کیو ایم کو حکومتی اتحاد سے نکلنے کی دعوت دی ہے اور عدم اعتماد کے حوالے سے ایم کیو ایم کو پیغام دے دیا ہے۔ بقول شہباز شریف میرا دل کہتا ہے کہ یہ میری باتوں سے متفق ہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد سمیت تمام آپشنز پر اپوزیشن نے اپنا ایجنڈا دے دیا ہے اور اس حوالے سے فیصلہ رابطہ کمیٹی سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کو قانونی راستے سے ہٹانا جمہوری حق ہے جسے استعمال کیا جائے گا،ان تمام دعوؤں اور سیاسی ہلچل کو حکومتی وزرا اپوزیشن کی ’غیر سنجیدگی‘ قرار دے رہے ہیں۔

وزیر اطلاعات کا اس ساری صورتحال پر کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی سینیٹ میں اکثریت ہے لیکن وہاں عدم اعتماد تو کیا بل تک پاس کرنے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔

یہ اپوزیشن جماعتیں انتہائی غیر سنجیدہ ہیں، جیسے ہی اپوزیشن رہنماؤں کے کیسوں کی تاریخیں آتی ہیں، یہ آپس میں جڑنا شروع ہوجاتے ہیں، فواد چوہدری کے بقول یہ تاثر درست نہیں کہ اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کیسوں میں دم نہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز سزا یافتہ مجرم ہیں۔

ملک میں سیاسی ماحول انتہائی گرم ہوچکا ہے، اپوزیشن اتحاد اور حکومتی اراکین کی جانب سے ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برسائے جارہے ہیں، مگر کیا ان سیاستدانوں نے ملک کے عوام کے مفاد میں بھی کچھ سوچا ہے؟ یا تحریک عدم اعتماد کے ذریعے موجودہ حکومت کا خاتمہ کرکے ملک کو ایک اور بحران میں دھکیل دیا جائے گا، تمام سیاسی رہنماؤں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا وقار بلند ہوسکے اور ترقی کی منازل طے کرسکے۔

Related Posts