کراچی کو حقیقی توجہ کی ضرورت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 کراچی ملک کا معاشی حب ہے، کراچی کی ترقی ملک کی ترقی ہے، یہ ترقی عوامی مسائل کے موثر حل کا تقاضا کرتی ہے۔یہ نادر خیالات کسی اور کے نہیں بلکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ہیں جنہوں نے 10 اگست کو کراچی کا 3 گھنٹے کا دورہ کرکے کراچی کے مسائل کے حل کیلئے ان کی دلچسپی کو مزیدواضح کیا۔

انتخابات سے قبل عمران خان نے “وزیراعظم کراچی سے ” کا نعرہ لگایا اور کراچی کے عوام اس نعرے کو حقیقت سمجھے اسی لئے انہوں نے عمران خان کو کراچی سے ان کی سوچ سے زیادہ ووٹ دیکر کامیاب کروایا لیکن عمران خان نے کراچی کی نشست چھوڑ کر کراچی کے عوام کے ووٹ کا ایسا بدلہ دیا کہ عروس البلاد کراچی آج بھی اپنی قسمت پر نوحہ کناں ہے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے، پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا۔پاکستان کا دار الحکومت اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں جبکہ 1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔

آج بھی پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔ کراچی کو اسی وجہ سے چھوٹا پاکستان بھی کہتے ہیں۔گذشتہ 150 سالوں میں کراچی کی آبادی و دیگر اعداد و شمار میں واضح تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ غیر سرکاری اور بین الاقوامی ذرائع کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 24 ملین ہے۔ جو 1947ء کے مقابلے میں 37 گنا زیادہ ہے۔

آزادی کے وقت کراچی کی آبادی محض 4 لاکھ تھی۔ تقسیم ہند1947 کے نتیجے میں دس لاکھ لوگ ہجرت کر کے کراچی میں آ بسے۔شہر کی آبادی اس وقت 5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس میں اہم ترین کردار دیہات سے شہروں کو منتقلی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 45 ہزار افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔

اپنی تمام ترخصوصیات کے ساتھ ساتھ کراچی کے مسائل بھی بے شمار ہیں اور بدقسمتی سے کوئی بھی حکومت کراچی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی، وفاق کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 3سال میں کراچی کے تقریباً دس کے قریب دورے کئے ہونگے اور ان دوروں میں بھی ان کا تمام تر فوکس اپنی سیاسی قیادت ، چندہ مہمات یا محض خانہ پری تو کہا جاسکتا ہے کیونکہ کراچی کے مسائل محض ہوائی دوروں سے حل نہیں ہوسکتے ۔

وزیراعظم عمران خان ہمیشہ دورہ کراچی میں صوبے کے کپتان مراد علی شاہ کو نظر انداز کردیتے ہیں ،ایک طرف عمران خان خود کو پورے ملک کا وزیراعظم کہتے ہیں اور کراچی کا درد ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ شائد وہ واقعی کراچی کیلئے پریشان ہیں لیکن عملی اقدامات ان کے دیگر یوٹرنز کی طرح عمران خان کے تمام خیالی منصوبوں کی طرح ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔

وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان چپقلش کی وجہ سیاسی ہوسکتی ہے کیونکہ وفاق میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلزپارٹی برسراقتدار ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں حکومتیں محض سیاسی کھینچا تانی اور الزام تراشی کے علاوہ کچھ بھی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ کراچی کیلئے پانی کی فراہمی کے منصوبے، ٹرانسپورٹ اور دیگر منصوبے کب مکمل ہونگے کچھ پتا نہیں۔

وزیراعظم عمران خان ہمیشہ کراچی کے عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں ، ماضی میں بھی انہوں نے کئی بار پیکیجز کا اعلان کیا لیکن حقیقت میں سندھ کے فنڈز کو بھی اپنا دکھاکر عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی اور پس پردہ اپنے اراکین اسمبلی کو فنڈز سے نواز کر کراچی کے نام پر لوٹ مار اور کرپشن کی کھلی چھوٹ دیدی اور آج عالم یہ ہے کہ کراچی کے کئی علاقوں میں سڑکیں بنانے کے نام پر محض کارپیٹنگ کرکے عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔

گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران کراچی کی محض ایک مارکیٹ نے پورے ملک سے زیادہ ٹیکس دیا اور خان صاحب نے گزشتہ روز فرمایا کہ ملک کی ترقی کراچی کی ترقی سے وابستہ ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب آپ کی قیادت میں نہ ملک ترقی کررہا ہے نہ کراچی۔

پی ٹی آئی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کیلئے بھرپور تیاری کررہی ہے اور آئندہ عام انتخابات میں  کراچی سے دوبارہ کامیابی حاصل کرکے سندھ میں بھی حکومت بنانے کے دعوے تو کئے جارہے ہیں لیکن کہ خان صاحب اور کراچی سے منتخب اراکین قومی و سندھ اسمبلی اور سینیٹرز یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ انہوں نے اب تک کراچی کے مسائل کے حل کیلئے کیا کارنامے انجام دیئے ہیں تو جواب ندارد۔

خان صاحب کراچی کے وسائل پر نظر جمانے اور کراچی پر راج کرنے کے خواب دیکھنے سے کچھ نہیں ہوگا اگر آپ کو واقعی کراچی کی ترقی مقصود ہے تو بلند و بانگ دعوے نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنا ہونگے۔

مہینوں بعد چند گھنٹوں کیلئے کراچی پر احسان کرنے کے بجائے آپ کو مستقل کراچی کے دورے کرنے چاہئیں اور کراچی کے مسائل کے حل کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ رکھنا ہوگا کیونکہ کراچی کو حقیقی توجہ کی ضرورت ہے اور اگر آپ نے محض بیوقوف بنانے کیلئے کراچی آنا ہے تو اس کیلئے آپ کی مقامی قیادت بھی کم نہیں ہے۔

Related Posts