مہنگائی کم کرنا حکومت کے بس میں نہیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو مہنگائی ختم کرنے کا مقصد پیشِ نظر رکھتے ہوئے اقدامات اٹھانے ہیں مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ الزام تراشی کرکے بین الاقوامی مارکیٹ کو قصور وار ٹھہرایا جارہا ہے اور ہم 3 سال سے منتطر ہیں کہ حکومت بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں کسی طرح کم کردے۔

مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ اس مہنگائی کو ختم کرنے کیلئے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جن سے پیٹرول اور بجلی کا استعمال ضرورت کے مطابق ہو تاہم ایسا نہیں کیا جاتا۔

وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی کابینہ کے ساتھ ساتھ حکومتی ادارے بھی بے دردی کے ساتھ سیکیورٹی پروٹوکول کے نام پر پیٹرول ضائع کرتے ہیں۔ ہر وزیر، گورنر یا پھر سرکاری عہدیدار کے ساتھ پیٹرول ضائع کرنے والا قافلہ جاتا ہے۔

ملک کی سیکورٹی صورتحال کی بات کی جائے تو ماضی کے مقابلے میں امن و امان کی صورتحال اچھی نہیں بلکہ بہت اچھی ہے۔ اب نہ ہڑتال کا دور، نہ القاعدہ کا خوف، نہ اغواء کاروں کی تعداد میں اضافہ، نہ بم دھماکے ہیں مگر پھر بھی ہماری حکومت کے لوگ اور سرکاری اداروں کے لوگ اسی بھاری بھرکم سیکورٹی پروٹوکول کے ساتھ گھومتے ہیں۔

سونے پر سہاگا یہ کہ جس قوم کے پاس معیشت کو مستحکم کرنے اور مسائل کے حل کیلئے پیسے نہیں، وہی قوم اپنی درآمدات میں بے رحمی سے اضافے کی مرتکب ہو رہی ہے۔ درآمد بھی وہ چیزیں کی جاتی ہیں جن سے سیاسی دباؤ پیدا نہ ہو یعنی گندم جو ہم خود اگاتے ہیں۔

گندم کم نہ ہوجائے، اس اندیشے سے اسے بے تحاشا درآمد کیا جاتا ہے۔ مگر اس کی تقسیم، ذخیرہ کرنے اور نمو کیلئے کوئی جمع تفریق نہیں کی جاتی۔ اس لیے پیشگوئی یہ ہے کہ حکومت کبھی گندم، چینی اور دالیں درآمد کرے گی اور پھر انہی اشیاء کو یا تو برآمد کردیا جائے گا یا افغانستان میں سرحد کے ذریعے بیچا جائیگا جو ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔

بجلی کی کمی ملک بھر میں ہے اور اس کے باوجود برقی گاڑیاں درآمد کرنے کو کہا جاتا ہے اور اس پر واجبات اور ڈیوٹیز بھی ہٹا دی جاتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور اس اضافے کی وجہ ناقص پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ہے۔

ٹرانسپورٹ سسٹم میں بہتری لانے کی بجائے حکومت لوگوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ موٹر سائیکلز اور گاڑیاں خریدیں مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ عوام جو موٹر سائیکل اور گاڑیاں خرید رہی ہے، وہ پیٹرول سے چلتی ہیں، پانی سے نہیں۔ پیٹرول کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے ہمارا درآمدی بل بڑھتا چلا جاتا ہے۔

وزیر اعظم کے مشیر عمران خان سے کہتے ہیں کہ عالمی آئل مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے پیٹرول کی قیمت کو بڑھانا پڑے گا۔ جب انٹرنیشنل مارکیٹ اپنے عروج پر 85.41ڈالر پر پہنچی تو حکومت نے پیٹرول کی قیمت بڑھاتے ہوئے 137.79 روپے لٹر کردی۔

آج بین الاقوامی مارکیٹ دباؤ میں آرہی ہے اور قیمتیں 7 فیصد نیچے گر چکی ہیں۔ آج تیل کی قیمت 79.35ڈالر ہے مگر حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں کمی لانے کی بجائے 5فیصد اضافہ کردیا اور اسے 145.89 روپے لٹر پر لے آئی جو غریب عوام کے ساتھ ظلم ہے۔

بلا جواز طور پر پیٹرول مہنگا کرنے کی بجائے اگر بین الاقوامی منڈی کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 7 فیصد کم کردیتی تو شاید عوام کو امید نظر آجاتی کہ حکومت سنجیدہ طور پر مہنگائی کم کرنے کیلئے پر عزم ہے اور معیشت میں بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تاہم ایسا نہیں ہوا۔

مہنگائی کا جواز تراشنے والی حکومت دوسرے ممالک کے بارے میں بات تو کرتی ہے مگر اپنے ہی ملک کے حالات کی طرف نہیں دیکھتی کہ یہاں غریب اور متوسط طبقے کا کیا حال ہے۔ ایسا نہ ہو کہ عوام سڑکوں پر نکلے اور اس حکومت کے خلاف مجبوراً ہڑتال اور دھرنے کا راستہ اپنائے۔

عمران خان نے خود بھی دھرنے کا طریقہ اختیار کرکے عوام کو سکھایا تھا کہ احتجاج کیسے کیا جاتا ہے۔ درخواست یہ ہے کہ یا تو مہنگائی کو کم کریں یا خود عوام کو یہ بتائیں کہ نہ مہنگائی کم کرنا حکومت کے بس میں ہے اور نہ ہی کوئی قابل ماہرِ معاشیات موجود ہے جو حکومت کو بہتر مشورے دے سکے۔ 

عوام منتظر ہیں کہ یا تو کوئی مسیحا آئے یا عمران خان کو مہنگائی کا احساس ہوجائے۔