محکمۂ سماجی بہبود کی 25خواتین کو ہراساں کرنے کا مقدمہ 2سال بعد درج

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

محکمۂ سماجی بہبود کی 25خواتین کو ہراساں کرنے کا مقدمہ 2سال بعد درج
محکمۂ سماجی بہبود کی 25خواتین کو ہراساں کرنے کا مقدمہ 2سال بعد درج

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے محکمۂ سماجی بہبود (سندھ سوشل ورکرز ویلفیئر) کی 25 خواتین افسران کو ہراساں کرنے کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر مقدمے کے اندراج میں ادارے کو 2 سال لگ گئے۔

تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے نے سوشل ورکرز ویلفیئر کے 2 ملازمین کو گرفتار کر لیا تاہم عدالتی کارروائی میں سائبر کرائم ونگ کے تاخیری حربوں کے باعث ملزمان کو فائدہ ملنے کا خدشہ ہے۔ چیف سیکریٹری سندھ نے بھی واقعے کا نوٹس لے لیا تھا۔

خواتین ہراسگی کے معاملے پر چیف سیکریٹری کے نوٹس کے باوجود سائبر کرائم ونگ نے پولیس کے اعلیٰ افسران اور سیاسی دباؤ پر انکوائری سرد خانے کی نذرکردی۔ سندھ سوشل ورکرز ویلفیئر کی 25 خواتین افسران کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہراساں کیا گیا تھا۔

ایف آئی اے نے مقدمے میں ملوث اسسٹنٹ سول ویلفیئر افسر ثاقب شیخ اور جونیئر کلرک عدیل میمن کو مقدمہ الزام نمبر 54/2022 میں پیکا ایکٹ کی دفعات 20، 21 اور 24 سمیت دیگر کے تحت حراست میں لے لیا۔ ہراسگی کے الزامات 2020 میں سامنے آئے تھے۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2020 میں سندھ سوشل ویلفیئر کی خواتین افسران نے سوشل میڈیا کے ذریعے ہراساں کرنے پر ایف آئی اے سائبر کرائم کو درخواست دی کہ ان کے اصل موبائل نمبرز مختلف فحش ویب سائٹس پر ڈال دئیے گئے ہیں۔ ملوث افراد کیخلاف کارروائی کی جائے۔

ابتدائی طور پر ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے درخواست پر تفتیش کی بجائے انکوائری کو 506/2020 میں تبدیل کردیا اور جن افراد کے نام سامنے آئے انہیں سامنے لانے کی بجائے فائل سرد خانے میں ڈال کر متاثرہ خواتین کو نوٹسز میں الجھا دیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس انکوائری میں سیاسی جماعت کے ساتھ سندھ پولیس میں تعینات اعلیٰ افسران کا بھی سائبر کرائم پر دباؤ  تھا کہ انکوائری کو مقدمے میں تبدیل نہ کیا جائے۔اس دوران متاثرہ خواتین افسران کی شکایت اس وقت کے چیف سیکرٹری سندھ تک بھی جا پہنچیں۔

چیف سیکرٹری سندھ نے بھی نوٹس لیتے ہوئے فوری کارروائی کے احکامات دئیے لیکن سوشل ورکر ویلفیئر اور ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے سابقہ اور موجودہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ نے انکوائری کو سرد خانے کی نذر کر دیا۔

انکوائری سرد خانے کی نذر ہونے کی وجہ سے اہم شواہد کے ضائع ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے  اور تاخیری حربوں کی وجہ سے عدالت میں ملزمان کو اس سے فائدہ ملنے کا امکان ہے۔مقدمے کے اندراج میں ہراسگی کے الزام کو بھی دبا دیا گیا۔ 

 مقدمے کے مطابق خواتین افسران کو سندھ سوشل ورکر ویلفیئر میں ترقیاں ملنے پر افسران کا ایک گروہ ان کے خلاف ہے جب کہ بعض اہلکاروں کی من پسند ترقیوں پر بعض خواتین نے عدالت سے رجوع کر رکھا تھا اور اسی گروہ نے خواتین کو ہراساں کیا۔

مذکورہ گروہ نے خواتین کو ہراساں کرنے کیلئے ان کے اصل موبائل نمبر فحش ویب سائٹس پر اپ لوڈ کر دئیے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تاحال سائبر کرائم ونگ نے ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے یہ روش نئی نہیں۔

اسی طرح ایف آئی اے اسلام آباد کو بھی ہری پور یونیورسٹی میں مبینہ طور پر ڈاکٹر امجد کی جانب سے ایک طالبہ کو ہراساں کرنے کی درخواست مع ثبوت یونیورسٹی کی طرف سے بھیجی گئی تھی جس کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اسلام آباد کے افسران نے سرد خانے کی نذر کر دیا۔

حیرت انگیز طور پر  ایف آئی اے کے افسران ذاتی حثیت میں تعلقات کی بنیاد پر فیس بک و سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ہونے والی دوستیوں اور بریک اپ کے مسائل کو حل کرنے میں مگن رہتے ہیں، تاہم ہراسگی کے الزامات پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔

Related Posts