مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا عالمی دن اور مسلمانوں پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا عالمی دن اور مسلمانوں پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم
مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا عالمی دن اور مسلمانوں پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وطنِ عزیز پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرزمینِ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے جس کا مقصد غاصب اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم کو بے نقاب کرنا ہے۔

مقبوضہ کشمیر پر بھارت اور سرزمینِ فلسطین پر اسرائیل نے غیر قانونی طور پر قبضہ کیا، کشمیر میں بھارت غیر کشمیری شہریوں کو لا کر بسا رہا ہے اور یہ بالکل وہی طریقہ ہے جو اسرائیل نے فلسطین میں پہلے ہی اختیار کر رکھا ہے۔

دُنیا بھر سے یہودی عوام کو فلسطین میں لا کر بسایا جارہا ہے اور یہودی بستیوں میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم و ستم کی داستانیں آج ہر مسلمان کی زبان پر موجود ہیں۔ آئیے مسئلۂ فلسطین کی تاریخی اہمیت اور اسرائیل کے ظلم و ستم کے حوالے سے کچھ حقائق پر نظر ڈالتے ہیں۔

سرزمینِ فلسطین کس مذہب کیلئے اہم ہے؟

توجہ طلب بات یہ ہے کہ مسلمانوں کیلئے سرزمینِ فلسطین اِس لیے اہم ہے کیونکہ ہم اسے اپنا قبلۂ اول قرار دیتے ہیں، معراج کی رات حضورِ اکرم ﷺ نے جن جن مقامات کی زیارت کی ان میں مسجدِ اقصیٰ بھی شامل تھی جو فلسطین میں ہے۔شاعر کہتا ہے:

ایک بار اور بھی بطحیٰ سے فلسطین میں آ

راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا

یہ تو مسلمانوں کی نظر میں فلسطین کی اہمیت ہوئی لیکن مسیحی اور یہودی جو مسلمانوں کی طرح الہامی مذاہب ہیں، ان کی نظر میں بھی فلسطین اتنی ہی اہم سرزمین ہے کیونکہ یہاں ہیکلِ سلیمانی اور تابوتِ سکینہ کے ساتھ ساتھ تختِ داؤدی بھی موجود ہے جن کی تاریخی و مذہبی اہمیت ان مذاہب کے صحیفوں اور دیگر اہم روایات میں دستیاب ہے۔

اسرائیل دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانا چاہتا ہے، مسیحی قوم امریکا کے روپ میں اس کا کسی نہ کسی طرح ساتھ دے رہی ہے جبکہ مسلمان اپنی ہی سرزمین سے محروم اُس عالمی برادری کی طرف امداد کیلئے دیکھ رہے ہیں جس نے گزشتہ 70 برس سے کبھی فلسطینیوں کی مدد کیلئے سنجیدگی نہیں دکھائی۔

اقوامِ متحدہ کا عالمی دن، عجیب مذاق

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ 40ء کی دہائی میں اقوامِ متحدہ نے خود ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے سرزمینِ فلسطین کو 2 حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ اسرائیل اور دوسرا اہلِ فلسطین کے حوالے کیا تھا جس کی یاد میں فلسطینیوں کا عالمی دن 29 نومبر کو ہی منایا جاتا ہے۔

کیا یہ عجیب مذاق نہیں کہ جو عالمی ادارہ سرزمینِ فلسطین کو مقبوضہ فلسطین بنانے کا باعث بنا ہو، وہ فلسطین کو آزاد کرانے کی بجائے محض ایک دن منا کر اپنے فرض سے سبکدوشی کا اعلان کرے؟ یقیناً یہی وہ ظلم ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا جارہا  ہے اور اسرائیل کے ظلم پر عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ کی خاموشی بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس نے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ فلسطینی عوام کے ناقابلِ تردید حقِ خود ارادیت کیلئے عالمی برادری اپنے عہد کی تجدید کا اعادہ کرے اور فلسطینیوں کا مستقبل تابناک بنائے جس میں امن، وقار، انصاف اور تحفظ فراہم کیا گیا ہو۔

پاکستان اسرائیل کو تسلیم کیوں نہیں کرتا؟ 

سن 1947ء میں آج ہی کے روز اقوامِ متحدہ نے تقسیمِ فلسطین کا منصوبہ منظور کیا اور اگلے ہی برس 14 مئی کو ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا اور یہی وہ شخص تھا جسے ملک کا پہلا وزیرِ اعظم بنایا گیا۔

مسلم ممالک فلسطین پر قبضے کے خلاف کھڑے ہوئے اور کئی ممالک نے تو اسرائیل پر حملہ بھی کردیا  تاہم اسرائیل اس جنگ میں اکیلا نہیں تھا۔ اس کی پشت پر امریکا پہلے سے موجود تھا جس نے مسلم ممالک کی مخالفت کے باوجود اسرائیل کا ساتھ دیا۔

سن 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق اسرائیل میں 88 لاکھ 84 ہزار افراد بستے ہیں جن میں سے 74 اعشاریہ 2 فیصد یہودی، 17 اعشاریہ 8 فیصد مسلمان، 2 فیصد مسیحی اور باقی ماندہ دیگر مذاہب آباد ہیں جہاں سب سے برا سلوک مسلمانوں سے کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں موجود تقریباً ڈیڑھ سے 2 کروڑ یہودی آبادی اسرائیل جا کر آباد ہونے کے حق میں نہیں کیونکہ تمام ہی یہودی صیہونی ایجنڈے کو نہیں مانتے تاہم اسرائیلی حکام انہیں اسرائیل میں بسا کر بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہیکلِ سلیمانی تعمیر کیا جائے جو ان کا صدیوں پرانا خواب ہے۔

ٹیمپل آف سلیمان یا ہیکلِ سلیمانی کو یہودی عبادت گاہ سمجھنا چاہئے جو زبور کی پیش گوئی کے حوالے سے بیت المقدس کی جگہ پر ہی تعمیر ہونی ہے اور یہی وہ مسئلہ ہے جس پر فلسطینیوں کو بے گھر کیا گیا، یہودی بستیاں بسائی گئیں اور بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو قتل کرکے انہیں اپنی ہی سرزمین سے بے دخل کردیا گیا۔

پاکستان سمیت متعدد مسلم ممالک کے عوام اور حکمران اسرائیل کے خلاف دشمنی اور غم و غصے کے جذبات رکھتے ہیں جس کا پس منظر مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کھل کر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا جس پر پاکستان آج بھی قائم ہے۔ 

امریکا کی اسرائیل کیلئے مالی امداد اور اسلحہ 

بے شک اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری مسئلۂ فلسطین کیلئے بہت کچھ کرسکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عالمی برادری ایسا کیوں کرے گی جبکہ اسرائیل کی پشت پر امریکا موجود ہے؟

امریکی حکومت نے جہاں اسرائیل کے تحفظ کیلئے سالانہ بنیادوں پر کھربوں ڈالر کی امداد اور اسلحہ فراہم کیا، وہاں خطے میں عدم استحکام اور دیگر ریاستوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے 7 ٹریلین ڈالرز گزشتہ چند برسوں میں شام، عراق اور لبنان سمیت دیگر ممالک میں داعش اور ہمنواؤں پر خرچ کیے جو اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کیونکہ صدر ٹرمپ نے اس کا اعتراف گزشتہ برس اپنی ایک تقریر میں خود کیا۔

مسئلے کا حل کیا ہے؟

اتحاد بین المسلمین ہی مسئلۂ کشمیر کے حل کیلئے ضروری ہے کیونکہ مسلم ممالک خود آگے بڑھ کر جب تک فلسطین جیسے مذہبی مسئلے کے حل کیلئے کوشش نہیں کرتے، عالمی برادری مظلوم فلسطینیوں کیلئے کبھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گی۔

اسلامی تعاون کی تنظیم یعنی او آئی سی کے پلیٹ فارم سے مسئلۂ فلسطین کے حل پر گفتگو تو ضرور ہوتی ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِ اعظم کی ڈیل آف سنچری کے بعد بھی مسئلۂ فلسطین کے حل کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی ہو۔

اگر تمام مسلم ممالک مل کر مسئلۂ کشمیرو فلسطین کیلئے آواز اٹھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عالمی برادری اس پر کان نہ دھرے کیونکہ دنیا کے 195 ممالک میں سے 50 سے زائد ممالک مسلمان ہیں جن کی مجموعی طاقت مسلمانوں کے ہر مسئلے کو حل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، اگر کبھی یہ مسلم ممالک متحد ہوسکیں۔ 

Related Posts