ای او بی آئی کی نجی بینک سے معاہدے میں توسیع کے باوجود پنشنرز رُل گئے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ای او بی آئی کی نجی بینک سے معاہدے میں توسیع کے باوجود پنشنرز رُل گئے
ای او بی آئی کی نجی بینک سے معاہدے میں توسیع کے باوجود پنشنرز رُل گئے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی : نجی بینک (بینک الفلاح لمیٹڈ) کے ہاتھوں ای او بی آئی لاکھوں بزرگ، معذور اور بیوگان پنشنرز کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے ، ای او بی آئی کے ہزاروں بزرگ، معذور اور بیوگان پنشنرز EOBI اور بینک الفلاح کی غفلت اور ناقص کارکردگی کے باعث پنشن کے لئے رُل گئے ہیں ۔ معمر پنشنرز کئی کئی ماہ سے اپنی پنشن کے لئے دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ بینک الفلاح کے نظام میں پنشن وصول نہ کرنے کے باوجود پنشنرز کے بینک اسٹیٹمنٹ میں پنشن کی حیرت انگیز وصولی ظاہر ہو رہی ہے۔

نجی شعبہ کے ملازمین اور ان کے پسماندگان کے لئے قائم پنشن کے قومی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کی جانب سے پنشن کی ادائیگی کے لئے مقرر کردہ غیر ملکی بینک، بینک الفلاح لمیٹڈ کی غفلت، ناقص ترین کارکردگی اور شکایات میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ جس کے باعث ملک بھر کے ہزاروں پنشنرز سخت پریشان ہیں۔

اس کی حالیہ مثال نارتھ کراچی کے ایک رہائشی 66 سالہ EOBI  پنشنر سید غیاث حیدر کی داستان ہے۔ جنہوں نے شنائیڈر پاکستان لمیٹڈ سائٹ کراچی میں 38 برسوں تک خدمات انجام دیں اور اس صنعتی ادارہ کے ملازم کی حیثیت سے وہ یکم ستمبر 1976ء سے ای او بی آئی کے بیمہ دار ( Insured Person ) ملازم تھے۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد یکم جنوری 2016ء کو ای او بی آئی نے ان کی تاحیات پنشن منظور کی تھی۔ لیکن ای او بی آئی کے دیگر ہزاروں پنشنرز کی طرح غیاث حیدر بھی اس بڑھاپے اور شدید بیماری کے عالم میں بینک الفلاح کے ہاتھوں سخت اذیت میں مبتلا اور ستائے ہوئے ہیں۔ جو بینک الفلاح کی ناقص کارکردگی اور لاپرواہی کے باعث بڑھاپے اور شدید ترین گرمی میں بھاگ دوڑ کے باوجود تاحال اپنی ماہ جولائی 2021ء کی پنشن سے محروم ہیں۔

ریکارڈ کے مطابق سید غیاث حیدر حامل قومی شناختی کارڈ نمبر 42101-1640425-7 اور EOBI کلیم نمبر 13532، حسب معمول اپنی ماہ جولائی 2021ء کی پنشن وصول کرنے کے لئے 9 اگست کو بینک الفلاح کی بارہ دری نارتھ کراچی، برانچ، کوڈ نمبر 5559 گئے تو ATM مشین میں کارڈ ڈالنے پر ان کی پنشن کی رقم نہیں نکل سکی۔ البتہ بینک کی رسید نکالنے پر معلوم ہوا کہ وہ تو 4 اگست کو پہلے ہی اپنی ماہ جولائی کی پنشن وصول کر چکے ہیں۔

اس صورتحال پر غیاث حیدر نے بینک کے عملہ کو سارا ماجرا سنایا تو ان کا بھی موقف یہی تھا کہ آپ نے تو 4 اگست کو اپنی پنشن نکال لی ہے اور یہ بینک کی رسید سے بھی ثابت ہو رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ نے اس تاریخ کو پنشن نہیں نکالی؟ لیکن پنشنر غیاث حیدر اپنے موقف پر مصر رہے کہ وہ تو 4 اگست کو سرے سے بینک آئے ہی نہیں اور بینک آئے بغیر وہ کیسے پنشن وصول کر سکتے ہیں۔ بحث و تکرار کے بعد غیاث حیدر کی دعویٰ کی تصدیق کے لئے بینک ATM مشین میں نصب CCTV کیمرہ کی ریکارڈنگ چیک کی گئی جس سے غیاث حیدر کا مؤقف درست ثابت ہوا۔

لیکن غیاث حیدر کی سچائی سامنے آنے کے  باوجود بینک الفلاح کے منیجر نے اپنے بینک کی غلطی تسلیم نہیں کی اور ان کی پنشن ادا کرنے کے بجائے غیاث حیدر کو اس مسئلہ کی شکایت کرنے کے لئے ای او بی آئی ہیڈ آفس سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا، اس پر پنشنر سید غیاث حیدر جن کی دو بار دل کی انجیو پلاسٹی ہو چکی ہے، شدید ترین گرمی میں EOBI کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ، ہیڈ آفس شارع فیصل کراچی گئے تو وہاں ای او بی آئی کے عملہ نے ان کا کمپیوٹر ریکارڈ دیکھنے کے بعد بتایا کہ ای او بی آئی کی جانب سے تو حسب معمول ان کی پنشن بینک الفلاح کو بھیجی گئی ہے ۔ لہذا یہ ای او بی آئی کا نہیں بلکہ بینک الفلاح کا مسئلہ ہے۔

غیاث حیدر نے دوبارہ بینک الفلاح بارہ دری نارتھ کراچی برانچ کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ بینک الفلاح کی بارہ دری نارتھ کراچی برانچ کا عملہ پن کوڈ کو بینک اور پنشنر کے درمیان مخفی رکھنے کے بجائے بلند آواز میں سب پنشنرز کو EOBI پنشن  ATM کارڈ کے یکساں پن کوڈ بتاتے ہیں ۔ جو بینکنگ قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس تشویش ناک صورت حال کے باعث بزرگ اور بیمار پنشنر سید غیاث حیدر بینک الفلاح کی ناقص کارکردگی اور غفلت کی بناء پر ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنے پر مجبور ہیں ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ ہے کہ بینک کے معاملہ میں غفلت اور غیر ذمہ داری کے مرتکب ای او بی آئی کے افسران کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے،

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت پنشن کے قومی ادارہ EOBI کی وزارت کے متعلقہ وزیر،( وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری جو کافی دنوں سے پراسرار طور پر منظر عام سے غائب ہیں)، سہ فریقی بورڈ آف ٹرسٹیز، کل وقتی چیئرمین اور دونوں ڈائریکٹر جنرل آپریشنز ساؤتھ اور نارتھ سے بھی محروم ہے۔ جس کے باعث پورا ادارہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ جس کے باعث ایک جانب تو ادارہ میں غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ میں سنگین مالی بدعنوانیوں، غبن، خردبرد اور ان جو بدعنوان افسران کی جانب سے لوٹ کھسوٹ کا ایک بازار گرم ہے تو دوسری جانب ای او بی آئی کے لاکھوں بیمہ دار افراد پنشن کی مقررہ عمر کو پہنچنے اور اہلیت کے باوجود کئی برسوں سے ادارہ کے ملک بھر کے ریجنل آفسز میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں اور اسی طرح ہزاروں بزرگ، معذور اور بیوگان پنشنرز بینک الفلاح کے ہاتھوں اپنی جائز پنشن کی وصولی سے محروم ہیں ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی نے 2015ء میں اپنے رجسٹرڈ آجران سے کنٹری بیوشن کی وصولی اور لاکھوں پنشنرز کو ماہانہ پنشن کی ادائیگی کے لئے کسی قومی بینک کے بجائے ایک غیر ملکی بینک، بینک الفلاح سے پانچ برسوں کی مدت کے لئے معاہدہ کیا تھا۔ جس کے عوض بینک الفلاح ای او بی آئی سے آجران اور پنشنرز کی مد میں ہر ٹرانزیکشن پر اور فی کس 26 روپے وصول کرتا ہے ۔ اگرچہ بینک الفلاح سے اس معاہدہ کی مدت گزشتہ برس 3 اگست کو ختم ہوچکی ہے ۔ لیکن ای او بی آئی کے اس وقت کے نااہل اور بدعنوان چیئرمین اظہر حمید نے اپنے مخصوص مفادات اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے کووڈ 19 کی وباء کی آڑ میں اس معاہدہ میں ایک برس کے لئے ازخود توسیع کردی تھی۔ رواں برس 18 فروری کو چیئرمین اظہر حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد وفاقی حکومت نے تاحال چیئرمین ای او بی آئی کے عہدہ پر کسی افسر کی تقرری نہیں کی ہے۔ جس کے باعث ادارہ کے بے شمار اہم امور التواء کا شکار ہیں۔ جن میں بینک الفلاح کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد کسی نئے بینک کی تقرری کا معاملہ بھی شامل ہے ۔

لاکھوں پنشنرز کو شکایات کے باوجود اپنے 123ویں اجلاس منعقدہ 29-30 جولائی کو کسی نئے بینک کی تقرری ہونے تک بینک الفلاح کے معاہدہ میں مزید ایک برس کے لئے توسیع کردی ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے ای او بی آئی کی جانب سے ہر ماہ باقاعدگی سے مہینے کی آخری تاریخ کو تقریباً تین ارب روپے کے پنشن فنڈ بینک الفلاح کو منتقل کرنے کے باوجود بینک الفلاح میں اکثر مہینے کی پہلی تاریخ کو پنشنرز کے لئے اے ٹی ایم مشینوں پر پنشن دستیاب نہیں ہوتی۔

ای او بی آئی کے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ای او بی آئی کی جانب سے ہر ماہ اپنے 4 لاکھ سے زائد پنشنرز میں پنشن کی تقسیم کے لئے بینک الفلاح منتقل کی جانے والی اربوں روپے کی رقوم کا ادارہ میں باقاعدگی سے ری کنسیلیشن نہ ہونے کے باعث ای او بی آئی اور بینک الفلاح کے درمیان ایک مالی تنازعہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ جس کے لئے ای او بی آئی کی انتظامیہ نے 30 اپریل 2021 کو مراتب علی ڈوگر، قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بی اینڈ سی اور عوامی مرکز کراچی کی سربراہی اور محمد امین، ریجنل ہیڈ لاہور نارتھ، نرمل عرف نام دیو، ڈائریکٹر آئی ٹی ڈپارٹمنٹ، ہیڈ آفس، شفیق احمد پتر، قائم مقام ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس اور سخن الیاس ملک، قائم مقام ڈائریکٹر لاء لاہور پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی اور کمیٹی کو بینک الفلاح میں پھنسی ہوئی ادارہ کی بھاری رقوم کے باعث ای او بی آئی کو ناقابل تلافی مالی نقصان پہنچانے والے ای او بی آئی کے بدعنوان اور طاقتور افسران کا تعین کرنے کےلئے سات یوم ( 7 مئی تک ) کے اندر رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ لیکن اس تحقیقات کے نتیجہ میں ای او بی آئی کے چند پردہ نشینوں کے نام سامنے آنے کے باعث اس رپورٹ کو مخفی رکھا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : سندھ حکومت کا عمر شریف کے لیے ایئرایمبولینس سے متعلق وفاق کے نام خط

Related Posts