مہنگائی کی ماری قوم کو مسیحا کا انتظار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مہنگائی کا سفر2018 سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے 2022 میں مہنگائی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی جس کے بعد سے ہر پاکستانی کی زبان پر ایک ہی بات ہے کہ ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے،حتیٰ کہ مہنگائی کی وجہ سے اب تو تجہیز و تکفین کا عمل بھی مشکل ہوچکا ہے۔ جو قبر 1500 روپے میں تیار ہوتی تھی آج 16 ہزار میں بن رہی ہے۔

آیئے مہنگائی کے اس سفر کے آغاز پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

مہنگائی کے اس طوفان کا آغاز 2018 میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے ہوا، 2018 میں بجلی کی قیمت فی یونٹ 11اعشاریہ 72 پیسے تھی اور آج بجلی کی قیمتوں کو مختلف انداز میں دکھاکر عوام سے 22 روپے 18 پیسے فی یونٹ وصول کئے جارہے ہیں اور صنعت کار سے 27 اعشاریہ 56 فی یونٹ لئے جارہے ہیں۔

بجلی مختلف اشیاء سے بنتی ہے۔ اگر ڈیزل سے بجلی بنائی جائے تو 25 روپے 98 پیسے فی یونٹ میں بنتی ہے اور فیول آئل سے 22 روپے 80 پیسے، ایل این جی سے 16روپے 70 پیسے، کوئلے سے 14 روپے 10 پیسے، قدرتی گیس سے بنائی جائے تو 7 روپے 74 پیسے میں تیار ہوتی ہے۔

اب ان تمام اشیاء کا مجموعہ لیا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان چند سالوں میں گیس پر بجلی نہیں بن رہی جبکہ گیس کے ذخائر کو صحیح معنوں میں استعمال کرنا اور پالیسیاں بنانا حکومت کا کام ہوتا ہے جس کی وجہ سے بجلی سستی اور صنعتکاروں کیلئے پیداواری لاگت میں کمی آتی ہے۔اب آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ حکومت بجلی کس طرح سستی کرسکتی ہے۔

دوسری طرف بات کریں تو صرف گزشتہ 3 ماہ میں ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ہوٹلز کے کرایوں میں 15 فیصد اور ریستوران کے کھانوں کی قیمتوں میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔دیگر خوردنی اشیاء کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ 3 ماہ میں 14 اعشاریہ 73 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ہول سیل پرائس انڈیکس کی بات کی جائے تو جون 2021میں 164اعشاریہ 86 پوائنٹس تھی اور فروری 2022 میں 194 پوائنٹس پر پہنچ چکی ہے۔

ہول سیل مارکیٹ کا کہنا ہے کہ پیداواری کمپنیوں سے سامان مہنگا ملنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے جو کہ حقیقت ہے۔پروڈیوسر پرائس چینج کے حوالے سے محض ایک ماہ کا ہی جائزہ لیا جائے تو قیمتوں میں 24 فیصد کااضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔کوئی چیز دکاندار سے صارف تک پہنچتی ہے تو اس کی قیمت میں کتنا فرق آتا ہے ، اوپر دیئے گئے اعداد وشمار سے اس کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کی شرح آج گزشتہ ایک ماہ میں 12 اعشاریہ 20 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔اب اس مہنگائی کے باوجود حکومت کام کرنے والے ہر انسان سے 35فیصد ذاتی انکم ٹیکس لیتی ہے جبکہ کارپوریٹ ٹیکس کی مد میں 29 فیصد اور سیلز ٹیکس کی صورت میں 17 فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔

جن لوگوں کے پاس کچھ تھوڑی بہت جمع پونجی ہوتی ہے آج کے دور میں وہ بینکوں میں محفوظ کرواکر 8 اعشاریہ 75 فیصد منافع لیکر بڑی مشکل سے اپنا گزربسر کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو انسان کاروبار کرنا چاہتا ہے اور بینک سے سود پر قرض لینا چاہتا ہے تو اسے 11 اعشاریہ 93 فیصد پلس شرحِ سود پر لینا پڑتا ہے جس کی وجہ سے کاروباری لاگت اور قرض پر لاگت (کاسٹ آف فنانس) بڑھ جاتی ہے۔ 

حکومت نے عوام سے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ملکی معیشت پر دباؤ آیا مگر یہ دیکھا جارہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اگست 2021 میں 27067اعشاریہ 7ملین ڈالر تھے اور فروری 2022 میں 17095اعشاریہ 8 ملین ڈالر ہوچکے ہیں۔

کورونا پاکستان میں اگست 2021 میں تقریباً ختم ہوچکا ہے اور اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اگست 2021 میں کتنے تھے اور اب کورونا نہ ہونے کے برابر ہے تو اب کیا صورتحال ہے۔

یہی وجہ ہے کہ روپے پر مستقل دباؤ نظر آرہا ہے اور آج ڈالر 180 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور شومئی قسمت کہ ہمیں اربوں ڈالر کے قرض واپس کرنے ہیں جس پر حکومت کی باتیں خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔اسی طرح کچھ لوگ جو کہتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ 70 ہزار پوائنٹس پر چلی جائیگی ،وہ حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے۔

جنوری 2022 سے آج تک مارکیٹ ساڑھے چار ہزار پوائنٹس سے زیادہ گر چکی ہے مگر لوگوں کو یہی کہا جارہا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں چیزیں بہتر ہوجائینگی۔ چیزیں بہتر ہونے کیلئے صرف باتیں ہی سنائیں دے رہی ہیں حقیقت میں کچھ نظر نہیں آرہا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ملک کو بیرونی خطرات کاسامنا بھی کرنا پڑ رہا ہےا ور اسی دوران خراب معیشت کے تحت ملک کے اندرونی حالات بھی بگڑتے چلے جارہے ہیں۔ جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

یہ غور طلب بات ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے موجودہ حکومت کوختم کربھی دیا جاتا ہے تو موجودہ اپوزیشن کو دیکھتے ہوئے یہ نظر نہیں آرہا ہے کہ یہ لوگ مہنگائی کے بحران پر کیسے قابو کرسکیں گے۔چیزیں بدسے بدتر ہوتی نظر آرہی ہیں اور ہمیشہ کی طرح پاکستانی قوم کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کوئی مسیحا آئیگا یا پھر 75 سالوں کی طرح پاکستان ایک نازک دور سے گزرتے ہوئے کامیابی کے خواب ہی دیکھنے میں مصروف رہے گا؟